شمالی افغانستان میں طالبان حکام نے گانے اور آلات موسیقی بجانے کے الزام میں 14 افراد کو گرفتار کر لیا۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت نے 2021 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے مسلسل ایسے قوانین اور ضوابط نافذ کیے ہیں جو اسلامی قانون کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کی عکاسی کرتے ہیں۔
اس میں عوامی مقامات ، براہ راست پرفارمنس سے لے کر اجتماعات ، ریستورانوں، کاروں یا ریڈیو اور ٹی وی پر موسیقی بجانا شامل ہے۔
صوبائی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ جمعرات کی رات شمالی صوبہ تخار کے دارالحکومت میں 14 افراد رات کے وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک رہائشی گھر میں جمع ہوئے جہاں وہ آلات موسیقی بجا رہے تھے اور گانے گا رہے تھے، جس سے عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ موسیقی کو اخلاقی بدعنوانی اور عوام میں پریشانی کا سبب قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد سے تفتیش کی جا رہی ہے، طالبان حکام نے برسر اقتدار آنے کے بعد میوزک اسکولوں کو بند کر دیا اور موسیقی کے آلات اور ساؤنڈ سسٹم کو توڑ دیا یا جلا دیا۔
شادی ہالوں کو موسیقی بجانے کی اجازت نہیں ہے البتہ خواتین کے علیحدہ حصے میں خفیہ طور پر موسیقی بجانے کی اجازت ہے، کئی افغان موسیقار طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد خوف کے باعث یا روزگار کی تلاش میں دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں سے ایک افغانستان کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
طالبان حکام اپنی صلاحیتوں کو اسلامی شاعری اور بغیر موسیقی کے ترانوں میں استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، موسیقی کی یہ واحد شکل ہے جس کی 1996 سے 2001 کے دوران طالبان کے سابق دور میں اجازت تھی۔