بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

FATFگرے لسٹ سے نکلنا

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے ہے کہ پا کستان نے اپنی تمام 34 شرائط پوری کر لی ہیں۔ اس طرح پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔

اس کامیابی کا سہرا کس کے سر جاتا ہے اس حوالے سے سیاسی جماعتوں میں پوائنٹ اسکورنگ کا کھیل بڑے زور و شور سے چل رہا ہے لیکن اس پورے میں کھیل میں کوئی بھی اس جانب توجہ دینے کو تیار دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کون سے اسباب یا کردار ہیں جو پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بھنور میں لیکر گئے تھے ۔گذشتہ دنوں برلن میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والے ادارے کی گر ے لسٹ سے نکالنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا

لیکن اس حوالے سے ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے لیکن اس سے پہلے ملکی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نہ صرف ایک دوسرے کو کریڈٹ دیا جارہا ہے بلکہ اپنے حلقوں میں شادمانی کے شادیانے بھی بجائے جا رہے ہیں حالانکہ اس وقت اتنا ماتم نہیں کیا گیا ہو گا جب پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا ۔بہر کیف سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے سلسلہ وار ٹوئٹس میں ملک کو اس کامیابی تک پہنچانے کا سہرا اپنی حکومت کو دے رہے ہیں جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کا بیان پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کی بحالی کا اعتراف ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف سے متعلق بنیادی سیل اور اس میں شامل فوجی اور سول قیادت کی کاوشیں قابل تعریف ہیں

اور اس قومی کوشش میں ان کے کام کا سہرا انھیں جاتا ہے۔بہر کیف جہاں سیاسی حریف ایک دوسرے کی کوششوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں وہیں پیشرفت میں فوج کے کردار کی تعریف کرنے پر متفق ہیں۔بلاشبہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف )کی گرے لسٹ میں پاکستان وقتاً فوقتاً رہا ہے ۔ اس امر کے پیچھے مقامی سطح پر کیا اسباب رہے ہیں اس بحث سے ہٹ کر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ایک عالمی سیاسی حربہ کے طور پر رکھا جاتا ہے جس میں امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ بھارت کا گھنائونا کردار شامل حال رہا ہے ۔

بہر کیف پاکستان عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے جارہا ہے جس سے پاکستان کے لیے معاشی و مالیاتی فوائد کے نئے راستے کھلیں گے۔ اس ضمن میں اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پی اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد ایک جانب پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ بہتر ہوگی تو دوسری جانب ملک کے مالی نظام بالخصوص بینکنگ سسٹم پر جو سوالات یا اعتراضات اٹھائے گئے تھے وہ ختم ہوجائینگے جن میں منی لانڈرنگ کا نکتہ سر فہرست رہا ہے ۔اس طرح پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے بڑھنے کے امکانات بھی روشن ہوجائینگے جو نہ ہونے کی وجہ سے ملکی معیشت کو ناتلافی نقصان اٹھانا ہے۔

بلاشبہ اس وقت ملکی معیشت کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ بیرونی سرمایہ کاری کا نہ ہونا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد یورپی ممالک کی سرمایہ کاری کے دروازے پاکستان کے لیے کھل سکتے ہیں جو ملکی معیشت کو استحکام دینے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔اس ضمن میں عالمی ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی ممالک ایف اے ٹی ایف کے مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور وہ ایسے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب برتتے ہیںجو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہوں کیونکہ ان کو خوف ہوتا ہے کہ کل اگر یہ ملک بلیک لسٹ میں چلا گیا تو ان کا سارا سرمایہ ڈوب جائے گا۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں سے نکلنے کے بعد امکان ہے کہ یورپی یونین و دیگر مغربی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آئیں۔

معاشی ماہرین نے اس رپورٹ میں اس امکان بھی ظاہر کیاہے کہ بیشتر مغربی ممالک مستقبل قریب میں پاکستان میں سیا حت، مذہبی سیاحت اور دوسرے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے حکومت کو پُر کشش اور متاثر کن پالیسیاں بنانا ہونگی ۔
عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت پر نظر رکھنے والے ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں پاکستان کو شامل کیے جانے کے پیچھے جو بھی عوامل کا ر فرما ہوں لیکن ایسے میں اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ کہیں نہ کہیں ہماری حکومتوں سے بھی کچھ کوتاہی برتی گئی ہے جس میں کمزور خارجہ پالیسی کے ہونا ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے ۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان امریکہ جیسے موقع پرست اور مطلب پرست ممالک کے ساتھ صرف اور صرف قومی مفادات کے تناظر میں اپنے تعلقات استوار رکھے جو کہ خالصتاً تجارتی و باہمی دلچپی اور تعمیری نوعیت سے تعلق رکھتے ہوں اور ایسے تعلقات سے گریز کریں جو ریاست کے غیر جانبدارانہ کردار کو متاثر کرتے ہیں کیونکہ ایسے ہی تعلقات بعد میں اقتصادی غارت گری کی وجہ بنتے ہیں جس کا خمیازہ ملک و قوم کو معاشی بد حالی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔اس ضمن میں سابق آمر جنرل ضیاء الحق اور سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغانستان میں لڑی جانے والی امریکی جنگوں کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان دنوں نام نہاد جنگوں میں پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی رہا ہے

لیکن اس کے منفی اثرات کا امریکہ کے مقابلے میں سب سے زیادہ سامناپاکستان کو کرنا پڑرہاہے ۔اس طرح نا صرف ملک کی معیشت تسلسل کے ساتھ زوال پذیر رہی بلکہ اس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی کشیدگی سے دو چار ہوتی رہی ۔جہاں اس طرح کی پالیسیوں کے نتیجے میں ریاست کو داخلی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا وہاں خارجی سطح پر بھی معاملات بے چینی پیدا کرتے رہے جن میں ہمسائیہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری سر فہرست رہی۔