بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

دولت کی دوڑ کا انجام،ایک 45 سالہ کامیاب مگر بے سکون انسان کی کہانی

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ زیادہ پیسہ زندگی میں خوشی اور سکون لے آئے گا، لیکن حقیقت اس سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ سیبی سے تعلق رکھنے والے رجسٹرڈ انویسٹمنٹ ایڈوائزر، ابھشیک کمار نے ایک ایسی حقیقت پر مبنی کہانی شیئر کی ہے جو دولت اور سکون کے درمیان فرق کو نمایاں کرتی ہے۔
ابھشیک اپنی لنکڈ اِن پوسٹ میں لکھتے ہیں، “ہم میں سے اکثر یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہمیں 12 کروڑ روپے مل جائیں، تو زندگی مکمل ہو جائے گی۔ لیکن میرے جاننے والے ایک شخص نے اپنی 15 سالہ محنت سے یہ دولت حاصل کی، نہ کہ کسی لاٹری یا وراثت سے — اور تب بھی وہ خوش نہیں تھا۔”
یہ شخص اپنی زندگی کی معراج پر مالی طور پر تو پہنچ چکا تھا، لیکن اندر سے وہ خود کو خالی اور بے سکون محسوس کرنے لگا۔ ابھشیک نے لکھا اس کے چہرے پر فخر یا مسکراہٹ نہیں تھی، بلکہ صرف ایک خاموش اداسی اور تھکن۔”
45 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے، مسلسل کام، ذہنی دباؤ اور غیر متوازن طرزِ زندگی نے اس کی صحت کو شدید متاثر کیا۔ اس کی جسمانی اور ذہنی کیفیت بتا رہی تھی کہ دولت کے بدلے اس نے سکون اور صحت کی قربانی دی ہے۔
ابھشیک نے اس شخص کے جذبات کو یوں بیان کیا: اگر دولت صحت اور ذہنی سکون کے بغیر ہو، تو وہ بے معنی لگتی ہے۔

اس شخص نے قیمتی اشیاء خریدیں، دنیا گھومی، اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارا، لیکن خوشی کا وہ جذبہ کہیں کھو چکا تھا۔ چیزوں میں خوشی تلاش کرنا اب اس کے لیے ممکن نہ رہا۔ کام کا دباؤ، طویل اوقات اور مسلسل تھکن اس کی زندگی سے رنگ چھین چکے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے، تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے دولت کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنا ذہنی سکون کھو دیا۔
اگر میں نے اپنی ذہنی صحت اور توازن پر توجہ دی ہوتی، تو آج شاید زندگی کچھ اور ہوتی،” اس کا کہنا تھا۔ 
حتیٰ کہ سرمایہ کاری جیسے مشغلے بھی اب اس کے لیے کشش نہیں رکھتے تھے۔ ابھشیک نے لکھا: “پیسہ کبھی آپ کو پیسے کے ساتھ بہتر تعلق نہیں سکھاتا۔”
یہ کہانی کسی پچھتاوے کی نہیں، بلکہ ایک اہم سبق کی ہے:
زندگی میں اصل کامیابی صرف دولت کمانے میں نہیں، بلکہ توازن، صحت، اور ذہنی سکون کے ساتھ جینے میں ہے۔

یاد رکھیں، بینک بیلنس بڑھانے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی کو کیسے جیتے ہیں۔