facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ایسا کیا ہوا تھا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی دوستی میں دراڑ گہری ہوتی چلی گئی ؟ سینئر صحافی سلیم صافی نے بڑا دعویٰ کر دیا

لاہور (ویب ڈیسک )سینئر صحافی سلیم صافی کا مقامی اخبار ” جنگ نیوز “ میں کالم شائع ہواہے جس میں انہوں نے موجودہ سیاسی صورتحال اور ماضی میں کی گئی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے مستقبل کی پیشگوئی کرنے کی کوشش کی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق سلیم صافی کا اپنے کالم میں کہناتھا کہ جہانگیر ترین اور علیم خان پیسہ خرچ کرنے والے تھے جبکہ یار محمد رند تجربہ کار سیاستدان اور رند قبیلے کا سردار ہونے کے ناتے پورے بلوچستان کے صدر بنائے گئے۔ ان میں اہم ترین کردار جہانگیر ترین ہی تھا۔ ایک تو انہوں نے بے دریغ پیسہ لگایا۔ دوسرا وہ میڈیا اورسٹیج کی بجائے ڈرائنگ روم کی سیاست کے ماہر ہیں۔ تیسرا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوآرڈینیٹر بھی وہ تھے۔

اس لیے پی ٹی آئی میں الیکٹ ایبلز کو لانے اور ان کے ساتھ ڈیل کرانے میں بنیادی کردار انہوں نے ادا کیا تھا۔ دوسرے نمبر پر علیم خان نے پیسہ لگایا جبکہ یار محمد رند نے بھی اربوں روپے لٹائے اور بلوچستان کے صدر کی حیثیت سے وہاں پارٹی کو پہچان دی۔ انتخابات سے قبل یہ تینوں اور اسی قسم کے لوگ ہی اہم ترین تھے۔سلیم صافی کا کہناتھا کہ ہر کسی کو یقین تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد دوسری اہم پوزیشن جہانگیر ترین کی ہوگی لیکن انہیں الیکشن سے قبل تاحیات نااہل کروا دیا گیا اور چند روز بعد ان پر واضح ہوگیا کہ اس سازش میں خود عمران خان بھی شریک تھے۔ وہ د±کھی تو بہت ہوئے لیکن پھر بھی عمران خان سے چمٹے رہے۔ الیکشن کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنانے کے لیے بھی انہوں نے ہی کلیدی کردار ادا کیا۔

اسد عمر یا شاہ محمود قریشی ایک ممبر بھی نہیں لاسکے لیکن جہانگیر ترین جہاز بھربھر کر لوگوں کو لاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی طرح سزا یافتہ ہونے کے باوجود عمران خان نے انہیں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بٹھا کر تمام وزارتوں کا نگران بنایا تھا۔کئی لوگ ان کی مہربانی سے وزیر بنے تھے۔خود وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی جہانگیر ترین کے ذریعے عمران خان سے ملے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد اعظم خان، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے ترین کےلیے ایسا ماحول بنایا کہ زلفی بخاری کے ذریعے ایک مخصوص جگہ سے ان کی چھٹی کرانے اور گھیرنے کا فرمان صادر ہوا۔

ایسا نہیں کہ چینی کے معاملے میں جہانگیر ترین کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن باقی سب کو معاف کرکے صرف ان کو پھنسایا گیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے ٹیلی فون ٹیپ کروائے گئے۔ ان کے گھر کی نگرانی کے لیے خفیہ کیمرے نصب کروائے گئے۔ ان کے بیٹے علی ترین کے خلاف بھی کیسز بنائے گئے۔

جہانگیر ترین ایک ذہین انسان ہونے کے ناتے مناسب وقت کا انتظار کررہے تھے جو اب آگیا ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے دوران عمران خان نے انہیں فون کرنے کی بارہا کوشش کی لیکن سوال یہ ہے کہ وہ باقی سب کچھ بھلا بھی دیں تو ایک سرائیکی پٹھان ہونے کے ناطے اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ سلوک کو کیسے بھلاسکیں گے؟ اس لیے میرے نزدیک وہ لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ عمران اور ترین کی سابقہ دوستی بحال ہوجائے گی۔

یہی دکھ علیم خان کو ہے۔ علیم خان نے بھی پی ٹی آئی میں اربوں کی سرمایہ کاری کی۔ وہ اپنے ا?پ کو بزدار کی نسبت وزارت اعلیٰ کا بہتر امیدوار سمجھتے تھے۔ لیکن عمران خان نے انہیں بزدار کے قدموں میں بیٹھنے پر مجبور کیا۔ جس طرح جہانگیر ترین کو برابری کا تاثر دینے کی خاطر نااہل کروایا گیا، اسی طرح علیم خان کو نیب سے گرفتار کروایا گیا۔