حکومت نے ستمبر سے نومبر کے دوران اپنے مالی تقاضے پورے کرنے کے لیے بینکوں اور کیپٹل مارکیٹس سے تقریباً 4 ہزار 800 ارب روپے قرض لینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ حالیہ سیلاب کے معاشی اثرات کے بعد مالی دباؤ میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت 2 ہزار 875 ارب روپے ٹریژری بلز جبکہ 2 ہزار ارب روپے پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (پی آئی بیز) کے ذریعے حاصل کرے گی۔ پی آئی بیز میں ایک ہزار 200 ارب روپے فکسڈ ریٹ بانڈز اور 750 ارب روپے فلوٹنگ ریٹ انسٹرومنٹس کے ذریعے اکٹھے کیے جائیں گے۔
ٹی بلز کے شیڈول کے مطابق حکومت 12 ماہ کے بلز سے 900 ارب، 6 اور 3 ماہ کے بلز سے 750، 750 ارب جبکہ ایک ماہ کے بلز سے 475 ارب روپے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
بینک قرضوں کے ساتھ ساتھ حکومت نے کیپٹل مارکیٹ سے بھی فنڈز اکٹھے کیے ہیں۔ حال ہی میں 17 اگست کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے ایک سے پانچ سالہ سکوک کی نیلامی کرکے 119 ارب روپے حاصل کیے گئے۔ اس سے قبل دسمبر 2024 میں 2 ہزار ارب روپے سکوک اور ایک ہزار 400 ارب روپے پی آئی بیز کے ذریعے اکٹھے کیے گئے تھے۔
مئی 2025 تک مقامی قرضہ 53 ہزار 460 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا جو ایک سال پہلے 46 ہزار 120 ارب روپے تھا، یعنی اس دوران 7 ہزار 340 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ مالی سال 2025 میں قرضوں کی ادائیگی 9 ہزار ارب روپے تک جا پہنچی جو وفاقی بجٹ کا تقریباً نصف بنتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب نے بنیادی ڈھانچے اور زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کے بعد محصولات کی وصولی میں کمی کا خدشہ ہے۔ اس صورت حال میں حکومت کو مزید قرض لینا پڑ سکتا ہے۔









