لوئر دیر کے علاقے میدان، سر بانڈہ میں شدت پسندوں کے خلاف سرچ اینڈ اسٹرائیک آپریشن کے دوران کم ازکم 7 ایف سی اہلکار شہید جبکہ 13 زخمی ہوئے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سرکاری ذرائع نے بتایا کہ لال قلعہ تھانہ کی حدود میں پہاڑی علاقے میں شدت پسندوں کے ساتھ شدید جھڑپ کے دوران ایک ایف سی اہلکار کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع ہے، شدت پسندوں نے مورچے بنا کر سیکیورٹی قافلے پر فائرنگ کی۔
زخمیوں کو پہلے لال قلعہ ہسپتال اور بعد میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال تیمرگرہ منتقل کیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق، پولیس، ایلیٹ فورس اور دیر اسکاؤٹس کی بھاری نفری علاقے میں موجود رہی اور آپریشن جاری رہا۔
سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ شدت پسندوں کو بھاری نقصان پہنچایا گیا ہے، تاہم اس بارے میں فوری طور پر کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
لال قلعہ ایک زمانے میں کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کا گڑھ تھا، جس کی قیادت مولانا صوفی محمد کرتے تھے، ان کے داماد ملا فضل اللہ بعد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ بنے اور 2009 میں مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کے دوران افغانستان فرار ہوگئے، جہاں بعد میں وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔
پولیس چوکی پر حملہ
علاوہ ازیں، شدت پسندوں نے رات گئے لجبوک پولیس پوسٹ پر حملہ کیا، پولیس ذرائع کے مطابق، کئی گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا جس کے بعد اہلکاروں نے حملہ پسپا کردیا۔ کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
ایک اور پیش رفت میں لوئر دیر کی ضلعی انتظامیہ نے جمعرات کو دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے ضلع بھر میں ڈرونز، کواڈ کاپٹرز اور غبارے اُڑانے پر پابندی لگا دی، ڈپٹی کمشنر محمد عارف خان نے اسسٹنٹ کمشنرز اور پولیس حکام کو سختی سے عمل درآمد کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ادھر، جنوبی وزیرستان میں توجی خیل قبیلے کے مشران نے 9 ستمبر کو ایک جرگے میں فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زمین دہشت گردوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے شدت پسندوں کو خبردار کیا کہ یا تو علاقے سے نکل جائیں ورنہ جلاوطنی کے لیے تیار رہیں۔
قبیلے کے مشران نے یہ بھی اعلان کیا کہ جو کوئی دہشت گردوں کو کھانے، پناہ یا کسی قسم کی مدد فراہم کرتا پایا گیا تو اس پر سخت جرمانہ کیا جائے گا، جس میں مکان کی مسماری اور 20 لاکھ روپے کا جرمانہ شامل ہوگا۔