خیبرپختونخوا میں حالیہ پولیو مہم کے دوران والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کے کیسز میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جسے حکام ایک مثبت پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق، مئی میں ایمرجنسی آپریشن سینٹر کی پانچ روزہ مہم کے دوران 17,136 بچوں کو پولیو ویکسین نہیں دی جا سکی تھی، جب کہ گزشتہ ہفتے مکمل ہونے والی مہم میں یہ تعداد کم ہو کر 14,712 رہ گئی ہے۔
انکار کی وجوہات میں مذہبی شبہات، غلط فہمیاں اور بیرونی سازشوں کے خدشات شامل تھے۔ بعض والدین اب بھی اس تاثر میں مبتلا ہیں کہ پولیو ویکسین اسلامی اصولوں کے منافی ہے یا یہ مغربی ممالک کی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کو بانجھ بنایا جا سکے۔ تاہم، ملک کے معتبر دینی اداروں اور لیبارٹری ماہرین کی جانب سے ان اعتراضات کو واضح طور پر رد کیا جا چکا ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ویکسین محفوظ ہے اور عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کر چکی ہے۔
صوبے میں مہم کے دوران پشاور اب بھی انکار کرنے والے والدین کے اعتبار سے سرفہرست رہا، جہاں ستمبر میں 5,977 بچوں کو قطرے نہ پلائے جا سکے، جو کہ مئی کے 6,812 کے مقابلے میں کم ہیں۔ لکی مروت دوسرے نمبر پر رہا جہاں انکار کی شرح بھی کمی کے ساتھ 2,128 کیسز رہی۔
صوبے کے جنوبی اضلاع، خاص طور پر لکی مروت، ٹانک، شمالی وزیرستان اور بنوں میں پولیو کے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں رواں سال پولیو کے 18 کیسز سامنے آ چکے ہیں، جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ پورے پاکستان میں اب تک 27 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سندھ سے 7، پنجاب اور گلگت بلتستان سے ایک ایک شامل ہے۔
حکام کے مطابق، پولیو کے خاتمے کے لیے ویکسینیٹرز، ضلعی انتظامیہ اور ہیلتھ افسران کی مربوط کوششیں جاری ہیں۔ چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ ہر مہم سے قبل ضلعی سطح پر ملاقاتیں کر کے ہدایات جاری کرتے ہیں تاکہ پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں تک ویکسین پہنچائی جا سکے۔
پولیو ویکسینیشن مہم کے دوران بعض علاقوں میں والدین کی عدم موجودگی بھی ایک بڑا مسئلہ بنی رہی، مئی میں ایسے بچوں کی تعداد 64,328 تھی، جو ستمبر میں معمولی اضافے کے ساتھ بڑھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ فیلڈ میں کام کرنے والے ورکرز 99 فیصد سے زیادہ بچوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن ہر مہم میں ایک فیصد سے کم بچے انکار یا عدم دستیابی کے باعث ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں، اور یہی صورتحال پاکستان کو تاحال پولیو فری ملک بننے سے روک رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ تین سال تک مسلسل ہر بچے کو ہر مہم میں قطرے پلائے جائیں۔ اس مقصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ والدین ہیں جو برسوں سے بے بنیاد نظریات پر ویکسین سے انکار کرتے آ رہے ہیں۔ انکار نہ صرف پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان ورکرز اور پولیس اہلکاروں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے جو جانفشانی سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔