منگل کے روز آٹو موٹیو سیکٹر کے مکالمے میں صنعت سے وابستہ ماہرین نے کہا کہ اگرچہ نئی الیکٹرک وہیکل پالیسی (این ای وی پی) 30-2025 کے تحت مقرر کردہ اہداف کافی پرجوش ہیں، لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے سبز نقل و حرکت (گرین موبلٹی) کی جانب مرحلہ وار اور عملی انداز میں پیش رفت زیادہ قابلِ حصول ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کراچی میں انڈس کنسورشیم کے زیرِ اہتمام منعقدہ پروگرام ’شفٹنگ گیئرز: لانچ آف آٹوموٹیو اسٹڈی اینڈ اسٹیک ہولڈرز ڈائیلاگ‘ میں شریک افراد نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عوامی چارجنگ انفرااسٹرکچر کی کمی، گاڑیوں کی بلند ابتدائی لاگت، اور بجلی کی پیداوار میں فوسل فیول (ایندھن) پر انحصار جیسے عوامل پیش رفت میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
مقررین نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت صرف 35 عوامی چارجنگ اسٹیشنز موجود ہیں، جو خطے کے دیگر ممالک جیسے بھارت اور نیپال کے مقابلے میں بہت کم ہیں، ساتھ ہی ملک کی 60 فیصد بجلی اب بھی فوسل فیول سے حاصل کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر قومی گرڈ کو ڈی کاربنائز نہ کیا گیا تو الیکٹرک گاڑیوں کی طرف منتقلی اخراجات (emissions) کو کم کرنے کے بجائے صرف ان کا مرکز تبدیل کرے گی۔
تقریب میں انڈس کنسورشیم اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی مشترکہ تحقیقی رپورٹ ’گرین ٹرانزیشن — بیریئرز اینڈ اپرچیونیٹیز فار دی آٹوموٹیو انڈسٹری ان پاکستان‘ بھی پیش کی گئی، جس میں سبز تبدیلی (گرین ٹرانزیشن) کے دوران درپیش رکاوٹوں اور مواقع دونوں پر روشنی ڈالی گئی۔
اس موقع پر اسٹیک ہولڈرز نے زور دیا کہ الیکٹرک گاڑیوں کو پائیدار طور پر اپنانے کے لیے لوکلائزیشن (مقامی پیداوار)، گرین گرڈ اور بیٹری ری سائیکلنگ جیسے اقدامات نہایت ضروری ہیں۔
صنعتی نمائندوں نے تسلیم کیا کہ کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے، انڈس موٹر کمپنی (آئی ایم سی) کی جانب سے ہائبرڈ گاڑیوں کی مقامی اسمبلی اور چینی کمپنی بی وائی ڈی کی متوقع شمولیت کو صاف توانائی پر مبنی گاڑیوں کی مقامی پیداوار کی سمت مثبت قدم قرار دیا گیا۔
سی ای او انڈس موٹر کمپنی علی اصغر جمالی نے کہا کہ ہائبرڈ اور پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیوں (پی ایچ ای ویز) کو بھی گرین موبلٹی کے تسلسل کا حصہ سمجھا جانا چاہیے، نہ کہ صرف بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کو، چونکہ ملک کی 60 فیصد سے زائد بجلی فوسل فیول سے پیدا ہو رہی ہے، اس لیے صرف ای ویز پر منتقل ہونے سے قلیل مدتی ماحولیاتی فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔
سی ای او انڈس کنسورشیم حسین جرار نے کہا کہ اگر مالی معاونت اور انفرااسٹرکچر سے متعلق مسائل حل کر لیے جائیں تو این ای وی پی ایک کامیاب ماڈل بن سکتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں سولر ٹیکنالوجی کے فروغ میں دیکھا گیا تھا۔
سابق چیئرمین پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز (پی اے اے پی اے ایم) عامر اللہ والا نے کہا کہ ای وی کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے مقامی پرزہ جات کی تیاری ناگزیر ہے، انہوں نے آئندہ برسوں میں بیٹریوں کے ضائع ہونے سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی اثرات پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
ایف پی سی سی آئی سے محمد ارمغان نے بتایا کہ مطالعے میں آئی ایم سی کی سپلائی چین کے اسکوپ تھری امیشنز پر توجہ دی گئی ہے اور ممکنہ ڈی کاربنائزیشن کے راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے، انہوں نے زور دیا کہ ہدفی پالیسی اقدامات، جیسے مالی مراعات، ٹیکنالوجی کی منتقلی، اور گرین فنانسنگ کے ذریعے اس شعبے کی تبدیلی کو تیز کیا جا سکتا ہے۔
شرکا نے پالیسی کے تسلسل، ای وی انفرااسٹرکچر کے فروغ، اور مالی معاونت کے نظام کو بہتر بنانے پر زور دیا تاکہ الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کو فروغ دیا جا سکے۔
بی وائی ڈی کی شمولیت اور مقامی اسمبلی کے منصوبے
ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے حبکو حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد رپورٹ کیا کہ چینی آٹو ساز کمپنی بی وائی ڈی کو پاکستان میں توقع سے زیادہ مثبت ردعمل ملا ہے، یہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی ای وی برانڈ کے طور پر کام کر رہی ہے، اور اس کی ایس یو وی Atto 3 کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بی وائی ڈی کی گاڑیوں کی مقامی اسمبلی 2026 کی دوسری ششماہی میں شروع ہونے کی توقع ہے، کمپنی چھوٹی کاروں سے لے کر ایس یو وی تک مکمل رینج متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے اور ان ماڈلز کو ترجیح دے رہی ہے، جنہیں ایسے صارفین استعمال کر سکیں جو اپنے گھروں پر پرائیویٹ چارجنگ یونٹس نصب کر سکیں۔
مزید برآں، بی وائی ڈی پاکستان کی پہلی قومی سطح کا ای وی چارجنگ نیٹ ورک قائم کر رہی ہے، جو کراچی سے پشاور موٹروے تک پھیلا ہوگا، تاکہ لمبی مسافت کی ای وی کے استعمال کو ممکن بنایا جا سکے۔
انتظامیہ کے مطابق مستقبل میں پاکستان سے رائٹ ہینڈ ڈرائیو مارکیٹس کو گاڑیوں کی برآمد کا امکان بھی موجود ہے، تاہم فی الحال توجہ پلانٹ کی ترقی پر مرکوز ہے، اس منصوبے میں دو بین الاقوامی مالیاتی شراکت دار بھی شامل ہو چکے ہیں۔