بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

26 ویں ترمیم کیس: پاکستان بار کونسل کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں میں وکیل عابد زبیری نے فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے دلائل مکمل کرلیے، جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کیا آرٹیکل 191 اے کا مطلب ہے کہ اب فل کورٹ کبھی بیٹھ ہی نہیں سکتا؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم ترمیم سے پہلے چلے جائیں اور چاہیں کہ چیف جسٹس فل کورٹ بنائیں، چیف جسٹس تو 26 ویں آئینی ترمیم کے بینیفیشری ہیں، پھر جسٹس منصور 26 ویں آئینی ترمیم کے متاثرہ ہیں، اس کا مطلب ہے معاملہ پھر جسٹس امین الدین خان کے پاس آئے گا؟

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔

پاکستان بار کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ وہ عدالتی فیصلے پیش کرنا چاہوں گا جس میں بینچ اور فل کورٹ میں تفریق بیان کی گئی ہے۔

وکیل عابد زبیری نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ پھر ہمیں فل کورٹ کو بینچ کہنا چھوڑنا ہوگا؟ وکیل عابد زبیری نے کہا جی بالکل فل کورٹ کو بینچ نہیں بلکہ فل کورٹ ہی کہیں گے۔

عابد زبیری نے عدالتی فیصلے پڑھتے ہوئے کہا کہ یہاں جو ساری باتیں ہورہی ہیں وہ بینچز کے بارے میں ہورہی ہیں، تمام عدالتی فیصلے بینچز کی تشکیل کے حوالے سے بات کرتے ہیں، فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے یہ فیصلے نہیں ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے پوچھا آپ کی استدعا کیا ہے؟ عابد زبیری نے کہا کہ میری فل کورٹ کی استدعا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ کے حوالے اس وقت کے ہیں جب آرٹیکل 191 اے نہیں تھا، آج کے دن جو آئینی بینچ ہے وہ آرٹیکل 191 اے کے تحت بنا ہے،کیا ہم آئینی بینچ میں رہتے ہوئے فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں ہم 191 اے میں رہتے ہوئے آئینی بینچز کے ججز میں اضافہ کردیں؟ آئینی بینچ 26 ویں آئینی ترمیم کا کیس سن سکتا ہے، ضرورت پڑی تو تمام آئینی بینچ کے ججز کو شامل کیا جاسکتا ہے، لیکن آپ کہہ رہے کہ فلاں ججز بیٹھیں گے اور فلاں نہیں، تو یہ عجیب بات ہے۔

عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ ایسی کوئی قدغن نہیں کہ آپ یہ معاملہ چیف جسٹس کو ریفر نہیں کر سکتے، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کو معاملہ ریفر کرنا الگ ہے، جوڈیشل آرڈر پاس کرنا الگ ہے۔

دوران سماعت عدالت نے وکیل عابد زبیری کو آرٹیکل 191 اے تھری اور فائیو پڑھنے کی ہدایت کی، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا کوئی قانون اس بینچ کو فل کورٹ بنانے کا جوڈیشل آرڈر پاس کرنے سے روکتا ہے؟ ہمیں کیا روک رہا ہے کہ ہم جوڈیشل کمیشن کو تمام ججز کو آئینی بینچ کا جج نامزد کرنے کا حکم نہیں دے سکتے؟ کیا ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہے؟

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اگر جوڈیشل کمیشن کوئی غیر آئینی حکم پاس کرتا ہے تو سپریم کورٹ اس کو ریورس کر سکتی ہے، مانتا ہوں کہ جوڈیشل کمیشن پر تمام ججز کو آئینی بینچ کا جج نامزد کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر جوڈیشل کمیشن کسی جج کو آئینی بینچ کے لیے نامزد ہی نہ کرے تو کیا سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا استعمال چھوڑ دے گی؟ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آئین کو ایسے ہی پڑھا جائے گا جیسا کہ اس میں لکھا ہے، اپنی مرضی کی تشریحات نہیں کی جاسکتیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے جسٹس عائشہ ملک کی آرٹیکل 191 اے کی تشریح سے اتفاق کرتا ہوں، اب آپ کے دلائل مکمل تبدیل ہوجاتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ٹھیک پڑھا، جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ فرض کریں اگر جوڈیشل کمیشن نے تمام ججز کو آئینی بینچ کا جج نامزد کردیا، اب فل کورٹ کون بنائے گا؟ آپ کے مطابق تو کمیٹی کے پاس تو صرف بینچز بنانے کا اختیار ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ہم خود فل کورٹ تشکیل دیں یا پھر معاملہ جوڈیشل کمیشن کو بھیجیں؟ وکیل عابد زبیری نے کہا آپ معاملہ چیف جسٹس کو بھیجیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پھر تو آپ کی دلیل ختم ہوگئی۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کی تعریف کے مطابق کمیٹی کے پاس فل کورٹ بنانے کا اختیار نہیں، وکیل عابد زبیری نے کہا اگر چیف جسٹس آئینی بینچ کے سربراہ ہوں تو وہ فل کورٹ تشکیل دے سکتے ہیں۔

دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ پاکستان میں تو ابھی آئینی بینچز بنے، دیگر ممالک میں بہت عرصے سے آئینی بینچز موجود ہیں، کیا دوسرے ممالک میں ایسا ہوا کہ انہوں نے آئینی معاملہ غیر آئینی بینچ کو بھجوانا ہو؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ میرے پاس ایسی کوئی مثال نہیں ہے، لیکن میں جنوبی افریقہ کی مثال دینا چاہتا ہوں، جنوبی افریقہ میں آئینی بینچ ہے لیکن اس کی اپیل سپریم کورٹ میں ہوتی ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے بھارت میں چیف جسٹس کو آئینی بینچ بنانے کا اختیار دیا گیا ہے، یہاں پر صورتحال مختلف ہے، یہاں چیف جسٹس کو اختیار نہیں دیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے جسٹس جمال مندو خیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کٹ شارٹ کریں اب وہ جوڈیشل کمیشن کی مداخلت چاہتے نہیں ہیں۔

دوران سماعت جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست تو 16 رکنی بینچ کی ہے نہ کہ فل کورٹ بینچ کی، آپ فل کورٹ نہیں چاہ رہے، آپ چاہ رہے ہیں صرف 16 ججز ہوں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 191 اے کا مطلب ہے کہ اب فل کورٹ کبھی بیٹھ ہی نہیں سکتا؟ کیا اب لارجر بینچ کے فیصلے اوور ٹرن ہو ہی نہیں سکیں گے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا ہمارا کیس ہی یہی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اسی لیے آپ سے درخواست ہے کہ آپ وہ دلیل دیں جس کے تحت آپ ترمیم سے پہلے کا بینچ مانگ رہے ہیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ آج آپ کے کہنے پر ہم جوڈیشل کمیشن کو تمام ججز کو آئینی بینچ کیلئے نامزد کرنے کا حکم دیتے ہیں، جوڈیشل کمیشن میں ووٹنگ میں تمام ججز آئینی بینچ کے لیے نامزد نہ ہوسکیں تو کیا ہوگا؟ کیا ہم اس ووٹنگ کے عمل پر اثر انداز ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم ووٹنگ کے عمل کو جوڈیشل آرڈر کے ذریعے روک سکتے ہیں؟

وکیل عابد زبیری نے کہا آپ جوڈیشل آرڈر سے آئینی بینچ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا ضرور کہہ سکتے ہیں، کون آئینی بینچ میں آتا ہے، کون نہیں آتا یہ جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے، اس موقع پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اندر کی بات بتاتا ہوں، ایک دو مرتبہ کمیٹی نے جوڈیشل کمیشن کو درخواست کی کہ ہمیں مزید ججز دیئے جائیں، جوڈیشل کمیشن میں اعتراض ہوا کہ آپ کسی جج کا نام نہ لیں، بس تعداد کی بات کریں، یہ کمیشن کا اختیار ہے، یہ بحث جوڈیشل کمیشن میں ہوچکی ہے، اٹارنی جنرل اس کے گواہ ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا بطور سربراہ آئینی بینچ یہ میرا استحقاق ہے کہ میں آئینی بینچ کے لیے ججز کا نام جوڈیشل کمیشن کو دوں۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اگر ہم یہ معالمہ کمیٹی کو بھیجتے ہیں تو ہم کیا کہیں گے کہ کمیٹی کیا کرے؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ عدالت معاملہ کمیٹی یا چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کے لیے بھیج سکتی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے لیے تو معاملہ چیف جسٹس کو ہی بھجوایا جائے گا، کمیٹی آئینی بینچز کے ججز تو بٹھا دے گی، باقی ججز پر تو اسکا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ تضادات پر تضادات سامنے آئے جارہے ہیں، آپ 16 رکنی بینچ چاہتے ہیں، آج سپریم کورٹ میں 34 ججز کی تعداد کی گنجائش ہے، اگر 34 ججز مکمل ہوجاتے ہیں تو آپ کہتے ہیں 16 ججز کے علاوہ باقی اپیل نہیں سن سکتے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر جوڈیشل کمیشن 34 کی 34 اسامیاں پوری کردتا ہے، اور آپ کی استدعا مان لی جاتی ہے کہ 16 ججز کیس سنیں، سولہ اور سولہ، 32 ہیں، یہاں تو ججز 34 ہیں، اس کا مطلب ہے اپیلنٹ بینچ موجود ہے۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر ہم ترمیم سے پہلے چلے جائیں اور ہم چاہیں کہ چیف جسٹس فل کورٹ بنائیں، چیف جسٹس تو 26 ویں آئینی ترمیم کے بینیفیشری ہیں، پھر جسٹس منصور 26 ویں آئینی ترمیم کے متاثرہ ہیں، اس کا مطلب ہے معاملہ پھر جسٹس امین الدین خان کے پاس آئے گا؟

وکیل عابد زبیری نے کہا ٹھیک ہے، جس کے پاس بھی آئے گا، یہ صوابدید چیف جسٹس کی ہوگی، میں ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، میں اپنی مرضی کا بینچ نہیں بنوا سکتا، میں تو کہہ رہا ہوں کیس اس ملک کا اہم کیس ہے، تمام ججز کی اجتماعی دانش آنی چاہیے۔ قانون میں یہ ضرور لکھا ہوا ہے کہ آئینی مقدمات آئینی بینچ ہی سنے گا، یہ کہیں نہیں لکھا کہ فل کورٹ آئینی مقدمات نہیں سن سکتا، آرٹیکل 191 تھری اور فائیو کے ذریعے فل کورٹ کا دائرہ اختیار لے نہیں لیا گیا، آپ کا جوڈیشل آرڈر پاس کرنے کا اختیار محدود نہیں ہوا ہے، آپ کرسکتے ہیں، اس کیس میں میرا مرکزی مدعا جوڈیشل کمیشن کی فنکشننگ ہے۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے آپ نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے جانا ہوگا، کوئی ایسی ججمنٹ بتائیں جو کہے ہم اس معاملے کو نہیں دیکھ سکتے، کیا ہم اس ترمیم کو چیلنج کرنے کے معاملے میں ترمیم کو دیکھ سکتے ہیں یا نہیں دیکھ سکتے؟

وکیل عابد زبیری نے کہا کہ بالکل آپ دیکھ سکتے ہیں، میں نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کے معاملے پر یہ اعتراض آیا تھا کہ ترمیم کو فی الحال نظر انداز کیا جائے۔

وکیل عابد زبیری نے کہا میں نے تو ایسا نہیں کہا، بالکل آپ دیکھ سکتے ہیں، وہ آئین کا حصہ ہے، تب ہی تو ہم چیلنج کر رہے ہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا ابھی جو بینچ بیٹھا ہوا ہے، یہ بینچ اپنے آپ کو سپریم کورٹ کی کپیسیٹی میں آرڈر کرسکتا ہے؟ وکیل عابد زبیری نے موقف اپنایا بالکل ایسا کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے آپ دو مختلف باتیں کر رہے ہیں، ہاٹ اینڈ کولڈ ایک ساتھ چلا رہے ہیں، ایک جگہ کہہ رہے ہیں کہ آپ بیٹھ سکتے ہیں، دوسری جگہ کہہ رہے ہیں کہ ترمیم سے آئے ججز نہیں بیٹھ سکتے، ہمیں اختیار ہے کہ ہم ہائیکورٹ سے ججز منگوا سکتے ہیں، جسٹس میاں گل حسن کی مثال آپ کے سامنے ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آپ نے صرف جوڈیشری سے متعلق ترامیم کو چیلنج کیا ہے؟ عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ نہیں ہم نے جوڈیشری کیساتھ ساتھ الیکشن کمیشن سے متعلق ترامیم بھی چیلنج کی ہیں۔

جسٹس جمال مندو کیل نے ریمارکس دیئے ماحولیاتی آلودگی اور ربا سے متعلق بھی ترامیم کی گئی تھیں، کیا وہ بھی چیلنج کی گئی ہیں؟ عابد زبیری نے کہا نہیں ان کو تو چیلنج نہین کیا، میں نے ترمیم پاس کروانے کا عمل بھی چیلنج کیا ہے، ہمارا مرکزی مدعا عدلیہ کی آزادی ہے، وکیل عابد زبیری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت پیر کے روز تک ملتوی کردی۔