اسلام آباد(نیوز ڈیسک) جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، جو لائیو اسٹریم کی گئی۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم بینچ میں جسٹس مظاہر، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر وکیل اکرم شیخ روسٹرم پر آگئے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ درخواست گزار ہیں؟ آپ بطور درخواست گزار پیش ہو رہے ہیں؟
اکرم شیخ نے جواب دیا کہ جی میں بطور درخواست گزار پیش ہورہا ہوں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آپ دیگر درخواست گزاروں کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں؟ تو اکرم شیخ نے جواب دیا کہ نہیں میں صرف اپنی نمائندگی کررہا ہوں، جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ آپ کے وکیل تو سردار لطیف کھوسہ ہیں، تاہم اکرم شیخ نے کہا کہ انہوں نے میرے نام کے ہجے غلط لکھے ہیں، میں آپ کی اجازت سے اپنی معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں، میرے پاس عدالت میں بطور درخواست گزار دلائل دینے کا حق ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ ہمیں آپ فل بینچ کی تشکیل کے لیے کوئی آئینی راستہ بتائیں، ہم اپنے حلف کے پابند ہیں، اب تک ایک بھی وکیل نے آئین کے مطابق دلائل نہیں دیے، ایک صاحب نے تو یہ بھی کہا کہ آئین کو سائیڈ پر رکھ دیں۔
اکرم شیخ نے کہا کہ آج کی میری التجا یہ ہے کہ آپ صاحبان حکمت و دانائی ہیں، آپ 8 دماغ اس تنازع کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔
جسٹس امین الدین نے پوچھا کہ آپ کی رائے میں فل کورٹ کیا ہے؟ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ یہ لاحاصل بحث ہے، میری معروضات ہیں کہ 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیا جائے، یہ آئینی بینچ اس کیس کو نہیں سن سکتا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اسی لیے سوال ہے کہ ایک غیر آئینی بینچ کے جج کو آئینی بینچ کا حصہ کیسے بنایا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ بے شک 24 ججز ہوں لیکن وہ آئینی بینچ نہ کہلائے، سپریم کورٹ کہلائے؟
اکرم شیخ نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم ایک متنازع ترمیم ہے، کسی ڈکٹیٹر نے بھی آئین کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا 26ویں ترمیم نے پہنچایا ہے، اس آئینی بینچ کے ججز کے پاس اس وقت دو عہدے ہیں، ایک عہدہ متنازع ہے، دوسرا نہیں، امید ہے کہ اللہ آپ کو اس ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی ہمت دے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے بینچ کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
اکرم شیخ نے کہا کہ یہ 8 رکنی بینچ 26ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کا اہل نہیں ہے، کیونکہ یہ بینچ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہی بیٹھا ہے، میں یزید کی بیعت نہیں کرسکتا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ مذہبی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ کے پاس کوئی آئینی دلائل نہیں، جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ اصول ہے کہ ایک لارجر بینچ کا فیصلہ ایک چھوٹا بینچ کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب معاملہ نیا ہے، آئینی بینچ بن چکا ہے، آپ نئے حالات کے مطابق دلائل دیں، آپ کہتے ہیں کہ یہ آئینی بینچ 26ویں ترمیم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا کیونکہ مفادات کا ٹکراؤ ہوگا، دوسری جانب آپ کہتے ہیں 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے، کیا 24 کے 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ میں مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوگا؟ جس میں اس بینچ کے جج بھی شامل ہوں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا 24 ججز بٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے پاس پرانے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا اختیار ہوگا؟
اکرم شیخ نے کہا کہ آپ نے خود کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بینچ کا ججز نامزد کردیا جائے، سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہوگا، تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کا معیار عالمی معیار کے مطابق نہیں، ہمارے ملک میں ایک الیکشن ہوا، کچھ لوگوں کو خیال گزرا کہ الیکشن کی اسکروٹنی ہوجائے گی، پھر اسکروٹنی اور احتساب کو روکنے کے لیے ایک کمیشن بن گیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی کے نتیجے میں یہ آئینی ترمیم آگئی، اتنی سی تو داستان ہے، پس منظر انتہائی اہم ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ دلائل بعد میں پیش کریں، پہلے تو ہم نے بینچ کا فیصلہ کرنا ہے ناں، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ دنیا جہان کی باتیں کرتے جائیے لیکن بینچ کی تشکیل کے حوالے سے ایک لفظ نہ کہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں یہ بینچ نہیں سن سکتا، چلیں فرض کریں ہم نے آپ کی بات مان لی، ہم یہاں سے اٹھ جائیں گے، فل کورٹ میں جا کر بیٹھ جائیں گے، فل کورٹ کا آرڈر کون کرے گا، یہ بتا دیں، فل کورٹ کون بنائے گا؟
جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ آپ نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ یہ 8 رکنی بینچ 26ویں آئینی ترمیم کالعدم قرار نہیں دے سکتا، تو آپ کے مطابق وہ کون سا بینچ ہوگا جو یہ کام کرسکتا ہے؟
اکرم شیخ نے کہا کہ اس ترمیم کے حوالے سے فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کرنا ہے۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے کہا کہ یہ بینچ جو آپ کے سامنے موجود ہے، اس میں تمام ججز 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے کے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جب تک آپ یہ ثابت نہیں کریں گے کہ یہ بینچ اس مقدمے کو سننے کا اہل نہیں تب تک ہم آپ کی درخواست نہیں مان سکتے۔
عدالت نے وکیل اکرم شیخ کو آرٹیکل 191 اے پڑھنے کی ہدایت کر دی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ہم 10 دن سے یہی پوچھ رہے ہیں، کچھ نے کہا ریفر کردیں، کچھ نے کہا آرڈر کر دیں، جسٹس جمال نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہم آرڈر کریں کہ یہ کیس سپریم کورٹ سنے؟
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ جی، بالکل! میں یہی چاہتا ہوں، میں چاہ رہا ہوں فل کورٹ بنے، 24 کے 24 ججز بیٹھ جائیں، پھر کسی جج کا ضمیر گوارا نہ کرے تو وہ بینچ میں نہ بیٹھے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کا مؤقف یہ ہے کہ یہ بینچ 24 ججز پرمشتمل فل کورٹ کا حکم جاری کرے۔
اکرم شیخ نے کہا کہ میں منیر اے ملک کے تمام دلائل کو اپناتا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کے علاوہ تو کسی نے نہیں کہا کہ 24 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائیں، تمام وکلا نے 16 ججز پر مشتمل بینچ کی بات کی۔
اکرم شیخ نے کہا کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں، لیکن میں اس سے آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ 24 ججز کو بیٹھنے دیں، کیا پارلیمنٹ آئین کے سائلنٹ فیچر کے خلاف جاسکتی ہے؟ کیا پارلیمنٹ ریاست کے ایک آرگن کو ختم کرسکتی ہے؟ کیا پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف جاسکتی ہے؟
جسٹس شاہد حسن بلال نے کہا کہ ان سوالات کا جواب تو مرکزی کیس میں دیکھ لیں گے۔
اکرم شیخ نے کہا کہ میں نے آپ کا پونا گھنٹہ لیا، 45 منٹ میں دلائل مکمل کرلیے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ آپ نے فرمایا آپ کی خواہش ہے کہ یہ کیس 24 جج سنیں، آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کی خواہش کو تکمیل تک کیسے پہنچایا جائے، آپ کی خواہش تو ایسی ہوئی کہ ’انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘۔
اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہوئے تو وکیل شبر رضا رضوی روسٹرم پر آگئے۔
شبر رضا رضوی نے کہا کہ میری استدعا یہ ہے کہ اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کرے، وہ سپریم کورٹ جو آرٹیکل 176 اور 191 اے کو ملا کر بنے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ نے 2 متفرق درخواستیں فائل کی ہیں؟ ہمارے پاس آپ کی صرف ایک متفرق درخواست ہے، دلائل شروع کرنے سے پہلے بتا دیں یہ بینچ فل کورٹ کا آرڈر کیسے پاس کرسکتا ہے؟
وکیل شبر رضا نے کہا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کے تحت بیٹھے ہیں لیکن پھر بھی آپ سپریم کورٹ ہیں، سپریم کورٹ کے کسی بھی بینچ کی طرح یہ بینچ بھی معاملہ چیف جسٹس یا کمیٹی کو ریفر کرسکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی فل کورٹ تشکیل کردیتی ہے، تو آرٹیکل 191 اے تھری میں بات کی گئی ہے اس کا کیا بنے گا؟ اس کے مطابق تو کسی دوسرے بینچ کو آئینی معاملہ سننے کا اختیار نہیں۔
وکیل شبر رضا رضوی نے کہا کہ یہ پاکستان کی عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، اس بینچ کو درد لینا پڑے گا، آپ پہلے سپریم کورٹ کے ججز ہیں، اسی بنیاد پر آپ آئینی بینچ کے ججز نامزد ہوئے، آرٹیکل 191 اے کو آرٹیکل 176 کے ساتھ ملا کرپڑھا جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کافی واضح ہے کہ آئینی معاملات آئینی بینچ کے علاوہ کوئی بینچ نہیں سن سکتا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے باقی کولیگز کہتے ہیں فل کورٹ اور بینچ میں فرق ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ آئین نے بینچ کو منع کیا ہے، فل کورٹ کو نہیں۔
شبر رضا رضوی نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ یہ معاملہ آرٹیکل 176 کے تحت تشکیل شدہ سپریم کورٹ کے سامنے رکھا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کی بھی یہ استدعا ہے کہ 16 ججز پر مشتمل فل کورٹ بنایا جائے؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ 26ویں ترمیم سے پہلے کی سپریم کورٹ یا ترمیم کے بعد والی سپریم کورٹ؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 24 جج سنیں یا 16 جج سنیں، آپ ہمیں یہ بتا دیں۔
شبر رضا رضوی نے کہا کہ اگر کوئی جج ذاتی طور پر نہ سننا چاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
پس منظر
یہ ترمیم گزشتہ سال اکتوبر میں پارلیمنٹ کے ایک طویل اجلاس کے دوران منظور کی گئی تھی، اُس وقت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الزام لگایا تھا کہ اس کے 7 ارکانِ اسمبلی کو اغوا کیا گیا تاکہ انہیں قانون کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا جا سکے، کیوں کہ پارٹی اس قانون سازی کی مخالف تھی۔
اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی الزام لگایا کہ اس کے 2 سینیٹرز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جنہوں نے بعد ازاں پارٹی لائن سے ہٹ کر ترمیم کے حق میں ووٹ دے دیا تھا۔
اس قانون سازی میں عدالتی اختیارات اور ججوں کی مدتِ ملازمت میں تبدیلیاں کی گئی تھیں، ایک شدید تنازع کا باعث بنی۔
حزبِ اختلاف اور قانونی ماہرین دونوں نے اس کے عدلیہ کی آزادی پر اثرات پر سوالات اٹھائے۔
ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس (سو موٹو) کے اختیارات ختم کر دیے گئے تھے، چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کی مدت 3 سال مقرر کی گئی تھی، اور خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس کے طور پر نامزد کرے۔
اسی ترمیم نے آئینی بینچ کے قیام کی راہ بھی ہموار کی، جو اب اسی قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے جس کے تحت یہ تشکیل دیا گیا تھا۔
فروری میں 6 نئے جج سپریم کورٹ میں شامل کیے گئے تھے، جن میں جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس محمد شفیع صدیقی، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس شکیل احمد، جسٹس عامر فاروق، اور جسٹس اشتیاق ابراہیم شامل ہیں۔
26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مختلف بار ایسوسی ایشنز، بار کونسلز، وکلا، پی ٹی آئی اور چند سیاست دانوں نے درخواستیں دائر کی ہیں۔
ان میں سے کچھ درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس کیس کی سماعت فل کورٹ کرے، آئینی بینچ نہیں۔
درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ اگر ثابت ہو جائے کہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان نے آزادانہ طور پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کیا یا دو تہائی اکثریت پوری نہیں ہوئی، تو عدالت اسے آئینی طریقہ کار کی خلاف ورزی قرار دے کر کالعدم قرار دے۔
بطور متبادل درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ عدالت ان دفعات کو ختم کرے جو عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچاتی ہیں، جو آئین کی نمایاں خصوصیت ہے۔
ان میں آرٹیکل 175A(1) اور 175A(18) تا (20) کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کی سالانہ کارکردگی جانچنے سے متعلق دفعات، آرٹیکل 175A(3) میں چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل سے متعلق دفعات شامل ہیں۔
درخواست گزاروں نے آئینی بینچوں کی آئینی حیثیت کو بھی چیلنج کیا ہے اور مؤقف اپنایا کہ عدالت ان تمام ترامیم کو غیر مؤثر قرار دے جن کے لیے ان ارکان کے ووٹ درکار تھے، جن کے الیکشن تنازعات زیرِ التوا تھے۔
انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2024 اور سپریم کورٹ (نمبر آف ججز) ایکٹ 2024 کو بھی غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا جائے، کیوں کہ یہ ’غیر آئینی ترمیم‘ سے پیدا ہوئے اور آئین سے ماورا اہداف کے حصول کی کوشش ہیں۔