ملک میں چینی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور مصنوعی قلت کی تحقیقات مکمل ہو گئیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی، جس میںپاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو بحران کا مرکزی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ چینی کے شعبے کو زیادہ شفاف بنانے کے لیے ڈی ریگولیشن کی جائے، یعنی حکومتی مداخلت کم کر کے مارکیٹ کو خود چلنے دیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ چینی کے 5 لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن اسٹریٹجک ذخائر ہر وقت موجود رکھے جائیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں قلت سے بچا جا سکے۔
کمیٹی کے کنوینئر مرزا اختیار بیگ کا کہنا تھا کہ چینی کے حالیہ بحران میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کے بعض ارکان براہ راست ملوث ہیں۔ ان کے بقول چینی کی قیمتوں میں رد و بدل اور مصنوعی قلت پیدا کرکے منافع خوری کی گئی، جبکہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کا کردار بھی غیر مؤثر اور مشکوک رہا۔
رپورٹ کے مطابق، چینی کی درآمد کے باوجود قیمتیں کم نہیں ہوئیں۔ حیران کن طور پر، حکومت نے چینی کی درآمد پرٹیکس 48 فیصد سے کم کر کے صرف 0.5 فیصد کر دیا، مگر عام صارف کو اس کا فائدہ نہ مل سکا۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی جاوید حنیف نے سوال اٹھایا کہ پہلے چینی برآمد کی گئی، پھر قلت کا بہانہ بنا کر دوبارہ درآمد کی اجازت دی گئی—اور اس پورے عمل سے فائدہ کن مخصوص افراد یا گروہوں نے اٹھایا؟
اس معاملے کی مزید تحقیقات کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، اور ذیلی کمیٹی کو ازسرِ نو تشکیل دینے کی ہدایت بھی جاری کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی مسابقتی کمیشن آف پاکستان (CCP) سے بھی اس بحران پر مکمل رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
وزارتِ تجارت نے تجویز دی ہے کہ آئندہ ایسے بحرانوں سے بچنے کے لیے ملک میں چینی کا مناسب بفر اسٹاک ہر وقت دستیاب رکھا جائے تاکہ مارکیٹ میں سپلائی کا تسلسل برقرار رہے۔
یہ رپورٹ ایک بار پھر ملک میں طاقتور لابیوں اور پالیسی کے کمزور نفاذ کو بے نقاب کرتی ہے، جہاں چند بااثر افراد کے فائدے کے لیے عام عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبا دیا جاتا ہے۔