بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

’برگر کاٹن اسکینڈل‘ سے سندھ کی جننگ انڈسٹری میں بھونچال

سندھ میں بڑے پیمانے پر کپاس میں ملاوٹ کا چونکا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں ٹنڈو آدم کی ایک جننگ فیکٹری پر الزام ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کی کپاس (لنٹ) میں کپاس کا فضلہ ملا کر ایسی مصنوعی پیداوار تیار کر رہی تھی جسے صنعتی حلقوں میں ’برگر کاٹن‘ کہا جا رہا ہے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی جانب سے غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے قائم کردہ 4 رکنی مانیٹرنگ ٹیم نے مصدقہ اطلاعات ملنے پر فیکٹری پر چھاپہ مارا۔ تاہم کارروائی کے دوران حالات اس وقت سنگین ہوگئے جب فیکٹری کے مالک نے مبینہ طور پر تقریباً 100 مسلح افراد کو بلا کر ٹیم کے ارکان پر حملہ کرایا اور انہیں کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا۔

اس واقعے نے ملک بھر کی جننگ انڈسٹری میں ہلچل مچا دی، اس کے ردعمل میں پی سی جی اے کی مانیٹرنگ کمیٹی اور سندھ کے جنرز کا ہنگامی اجلاس ٹنڈو آدم میں طلب کیا گیا، جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دیوالی کی تعطیلات کے بعد فیکٹری انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے گی۔

اطلاعات کے مطابق بعض جنرز نے ٹیکسٹائل ملز کے نمائندوں اور لیبارٹری عملے کی ملی بھگت سے کئی سالوں سے لنٹ کی گانٹھوں میں کپاس کا فضلہ شامل کر کے پیداوار کی کوالٹی خراب کی ہوئی تھی، اس طرزِ عمل نے ملکی کپاس کے معیار کو نقصان پہنچایا اور کئی ٹیکسٹائل ملز نے مقامی خریداری کے بجائے مہنگی غیر ملکی درآمدات کو ترجیح دینا شروع کر دیا، جس سے صنعت کو مالی بحران کا سامنا ہے۔

کپاس کے سال 26-2025 کے آغاز سے قبل پی سی جی اے نے فیصلہ کیا تھا کہ شعبے میں موجود ’کالی بھیڑوں‘ کو بے نقاب کیا جائے گا، اس مقصد کے لیے پنجاب اور سندھ میں علیحدہ مانیٹرنگ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جنہیں فیکٹریوں کے معائنے اور خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار دیا گیا۔

معروف جنر رمیش لال کی سربراہی میں کام کرنے والی سندھ کی مانیٹرنگ کمیٹی مئی سے کئی یونٹس کا معائنہ کر چکی تھی، اگرچہ ماضی میں کچھ فیکٹریاں ملاوٹ میں ملوث پائی گئی تھیں اور انہیں وارننگ دی گئی تھی، تاہم حالیہ عرصے تک کوئی نیا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا تھا، تازہ اطلاعات موصول ہونے پر حاجی لیاقت علی لسکانی، سیٹھ گوپال داس، سیٹھ کشور چند اور سیٹھ جے دادا پر مشتمل چار رکنی ٹیم نے ٹنڈو آدم کی فیکٹری پر اچانک چھاپہ مارا۔

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق تین جننگ یونٹس ایک ہی احاطے میں کام کر رہے تھے، جہاں مزدور لنٹ کی گانٹھوں کو اس انداز میں تیار کر رہے تھے کہ بیرونی تہہ میں اعلیٰ درجے کی کپاس اور اندرونی حصے میں فضلہ بھرا جا رہا تھا تاکہ لیبارٹری کے نمونوں سے معیار درست ظاہر ہو۔

جب کمیٹی کے ارکان نے فیکٹری میں داخل ہونے کی کوشش کی تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، فیکٹری کے مالک نے مبینہ طور پر 100 سے زائد مسلح افراد کو طلب کیا جنہوں نے پی سی جی اے ٹیم کو اسلحے کے زور پر زد و کوب کیا اور کئی گھنٹے حراست میں رکھا، ذرائع کے مطابق ٹیم نے جائے وقوعہ پر کپاس کے فضلے کے بڑے بڑے ڈھیر دیکھے جو لنٹ میں ملائے جا رہے تھے۔

جننگ انڈسٹری کے نمائندے احسان الحق کے مطابق اس طرح تیار کردہ ملاوٹی کپاس، جسے سندھ میں ’برگر کاٹن‘ کہا جاتا ہے، بلند قیمتوں پر فروخت کی جا رہی ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس غیر قانونی کاروبار میں فیکٹری مالکان، ٹیکسٹائل ملز کے خریداری ایجنٹ اور لیبارٹری عملہ سب شامل ہیں، جس سے تمام فریق فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ پاکستانی کپاس کی ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

پی سی جی اے ٹیم پر حملے کے بعد مانیٹرنگ کمیٹی اور سندھ کے جنرز کا ہنگامی اجلاس اتوار کی شام ٹنڈو آدم میں ہوا، جس میں صورتحال کا جائزہ لے کر قانونی اور تنظیمی اقدامات طے کیے گئے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے عہدیداران اور بڑی ٹیکسٹائل کمپنیوں کو فوری طور پر مطلع کیا جائے گا کہ متعلقہ جننگ فیکٹری میں کپاس کے فضلے کی ملاوٹ ہو رہی ہے، مزید یہ کہ دیوالی کی تعطیلات کے بعد جمعرات کو جنرز کا ایک اور اجلاس ہوگا جس میں ملوث فیکٹری کے خلاف سخت تادیبی کارروائی اور ایسی فیکٹریوں پر پابندی کے لیے لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

اجلاس میں یہ تجویز بھی منظور کی گئی کہ ٹیکسٹائل مل مالکان ان منتخب کارندوں اور لیبارٹری اہلکاروں کو برطرف کریں جو فیکٹری مالکان کے ساتھ ملی بھگت کر کے کپاس کے فضلے کو اعلیٰ درجے کی کپاس میں شامل کرتے ہیں، شرکا نے زور دیا کہ معیاری کپاس کی مقامی پیداوار سے ملک کی برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔

ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنی تفتیشی ٹیموں کو تحفظ فراہم کرے اور ملک گیر سطح پر ملاوٹی کپاس کے خلاف کارروائی کرے تاکہ پہلے ہی عالمی منڈی میں مسابقت برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرنے والی پاکستان کی کپاس کی صنعت کو مزید نقصان سے بچایا جاسکے۔