بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

چین مخالف سانائے تاکائچی جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب

جاپان کو اپنی پہلی خاتون وزیرِاعظم مل گئیں جب چین مخالف اور سماجی قدامت پسند سیاست دان سانائے تاکائچی نے آخری لمحات میں ایک اتحادی معاہدہ کر کے وزارتِ عظمیٰ حاصل کر لی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سانائے تاکائچی گزشتہ 5 سالوں میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والی پانچویں شخصیت ہیں، جو ایک اقلیتی حکومت کی قیادت کریں گی اور انہیں متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں اگلے ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا طے شدہ جاپان کا دورہ بھی شامل ہے۔

پارلیمان نے منگل کو مارگریٹ تھیچر کی مداح سانائے تاکائچی کو وزیرِاعظم منتخب کیا، جو ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں غیر متوقع طور پر اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں، وہ باضابطہ طور پر شہنشاہ سے ملاقات کے بعد عہدہ سنبھالیں گی۔

سابق ہیوی میٹل ڈرمر سانائے تاکائچی 4 اکتوبر کو حکمران لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کی سربراہ منتخب ہوئی تھیں، یہ جماعت کئی دہائیوں سے مسلسل اقتدار میں ہے لیکن حالیہ برسوں میں عوامی حمایت کھو رہی ہے۔

6 دن بعد تاکائچی کے قدامت پسند نظریات اور ایل ڈی پی کے فنڈنگ اسکینڈل سے ناخوش کومیتو پارٹی نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، جس کے بعد تاکائچی نے اصلاحات کی حامی دائیں بازو کی جماعت جاپان انوویشن پارٹی (جے آئی پی) کے ساتھ نیا اتحاد قائم کیا، جو پیر کی شام طے پایا۔

جے آئی پی خوراک پر سیلز ٹیکس کے خاتمے، کارپوریٹ اور تنظیمی عطیات پر پابندی لگانے اور اراکینِ پارلیمان کی تعداد کم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

تاکائچی نے پیر کو عہد کیا کہ وہ جاپان کی معیشت کو مضبوط بنائیں گی اور جاپان کو ایک ایسے ملک کے طور پر دوبارہ تشکیل دیں گی جو آئندہ نسلوں کی ذمہ داری اٹھا سکے۔

سانائے تاکائچی نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی کابینہ میں خواتین کی تعداد ’نارڈک ممالک‘ کے معیار کے قریب ہوگی، سابق وزیرِاعظم شیگیرو ایشیبا کی کابینہ میں صرف 2 خواتین تھیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق ممکنہ خواتین وزرا میں دائیں بازو کی سیاست دان ساتسوکی کاتایاما (وزیرِمالیات) اور امریکی نژاد کیمی اونودا (وزیرِمعاشی سلامتی) شامل ہو سکتی ہیں، جاپان عالمی اقتصادی فورم کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق 148 ممالک میں سے 118 ویں نمبر پر ہے جب کہ ایوانِ زیریں کے صرف 15 فیصد اراکین خواتین ہیں۔

64 سالہ سانائے تاکائچی خواتین کی صحت کے مسائل پر بات بڑھانے کی خواہاں ہیں اور وہ کھل کر اپنے ایامِ انقطاعِ حیض کے تجربے پر بھی گفتگو کر چکی ہیں، تاہم وہ اس پرانی قانون سازی میں ترمیم کی مخالف ہیں جو شادی شدہ جوڑوں کو ایک ہی خاندانی نام استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے، اور وہ شاہی خاندان میں مردانہ جانشینی کی حامی ہیں۔

تاکائچی کو متعدد معاشی و سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ تجارت کے معاہدے کے حل طلب معاملات، روسی توانائی کی درآمدات پر دباؤ، اور دفاعی اخراجات میں اضافہ بھی شامل ہیں۔

تاکائچی کے لیے جاپان کی بڑھتی عمر والی آبادی، سست معیشت، اور ایل ڈی پی کی ساکھ بحال کرنا سب سے بڑے چیلنج ہوں گے، چونکہ نئی حکومت پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اقلیت میں ہے، اس لیے قانون سازی کے لیے اسے دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی۔

وہ ماضی میں سخت مالیاتی پالیسی اور حکومتی اخراجات میں اضافے کی حامی رہی ہیں، جو ان کے سیاسی سرپرست سابق وزیرِاعظم شنزو آبے کی ’ایبینامکس‘ پالیسیوں کی بازگشت تھی، اگرچہ بعد میں انہوں نے ان پالیسیوں سے کچھ فاصلہ اختیار کیا، مگر ان کی کامیابی کے بعد جاپانی اسٹاک مارکیٹ میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔

چین کے حوالے سے اپنے سخت مؤقف کے باعث وہ ’چائنا ہاک‘ کہلاتی رہی ہیں، تاہم وزارتِ عظمیٰ کے بعد انہوں نے اپنا لہجہ نرم کر لیا ہے اور گزشتہ ہفتے جنگی یادگار ’یاسوکونی مزار‘ کی تقریب سے بھی دور رہیں، جس میں وہ باقاعدگی سے شریک ہوتی رہی ہیں۔

ان پر دباؤ ہوگا کہ وہ مسلسل انتخابی ناکامیوں کے بعد ایل ڈی پی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کریں، اس دوران چھوٹی جماعتیں، جیسے پاپولسٹ سینسیٹو پارٹی، جو امیگریشن کو خاموش حملہ قرار دیتی ہے، عوامی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔