کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) میں 11 ارب 33 کروڑ روپے مالیت کے منصوبے بغیر ٹینڈر اور قواعد کے دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے فوری تحقیقات کا حکم جاری کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، کے ڈی اے نے اربوں روپے کے کنسلٹنسی ٹھیکے بغیر اشتہار، بڈنگ یا قانونی طریقۂ کار کے دیے۔ اس انکشاف کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے معاملے کو “انتہائی سنگین” قرار دیتے ہوئے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور وزیر منصوبہ بندی و ترقی جام خان شورو کو مشترکہ طور پر انکوائری کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔
چیف منسٹر سیکریٹریٹ سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات ایم/ایس عاطف نذر پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی کو 11 ارب روپے سے زائد کے منصوبے بغیر اشتہار اور باضابطہ ٹینڈرنگ کے دیے جانے کے معاملے پر کی جائیں گی۔
یہ کارروائی سندھ کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے درج کی گئی شکایت پر شروع کی گئی ہے، جس میں کے ڈی اے پر سنگین مالی بے ضابطگیوں اور انتظامی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
شکایت کے مطابق، کے ڈی اے نے ابتدا میں مذکورہ کمپنی کوسرجانی ٹاؤن کے ایف ایل-4، ایف-5 اور سیکٹر 7-بی میں ایک منصوبہ ٹینڈر کے ذریعے دیا تھا، تاہم بعد ازاں بغیر کسی اشتہار یا بولی کے اسی کمپنی کو کئی بڑے منصوبے بھی دے دیے گئے۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ادارے نے ایس پی پی آر اے اورپلاننگ کمیشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ہی کنسلٹنٹ پر انحصار کیا، جس سے مالی نقصان کا خدشہ پیدا ہوا۔
مزید بتایا گیا کہ کریم آباد انڈر پاس کی ابتدائی لاگت 70 کروڑ روپے مقرر تھی، جو بعد میں بڑھ کر 1.35 ارب اور پھر 3.81 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ منصوبے کو پرانے CSR 2012 ریٹس پر ٹینڈر کیا گیا، لیکن بعد میں غیرقانونی طور پر CSR 2024 ریٹس نافذ کر دیے گئے، حالانکہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ نے پرانے ٹینڈرز منسوخ کر کے نئے جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ منصوبے کے ڈیزائن میں سنگین تکنیکی خامیاں پائی گئیں — دیواروں میں پانی کا رساؤ شروع ہوچکا ہے — اس کے باوجود کے ڈی اے نے اسی کمپنی کو مزید منصوبے دیے، جن میں منور چورنگی انڈر پاس اسکیم بھی شامل ہے۔
دستاویزات کے مطابق، کے ڈی اے نے مذکورہ کمپنی کوان ہاؤس کنسلٹنٹ” کا درجہ دے رکھا ہے، جس کے تحت اسے براہ راست پی سی-ون تیار کرنے اور جمع کرانے کی اجازت ہے۔
سندھ کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ کمپنی کے بیشتر منصوبے، جن میں اسپتال، اسکول اور سرکاری عمارتیں شامل ہیں، یا تو نامکمل ہیں یا غیر معیاری ثابت ہوئے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا ہے کہ تمام الزامات کی جانچ قانون، قواعد اور شفافیت کے تقاضوں کے مطابق کی جائے گی تاکہ ذمہ داران کا تعین ہو سکے اور مستقبل میں ایسے معاملات کی روک تھام کی جا سکے۔
کے ڈی اے میں 11 ارب روپے سے زائد کے ٹھیکے بغیر ٹینڈر دینے کا انکشاف، انکوائری کا حکم
