بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

27ویں آئینی ترمیمی بل 2025 کا مسودہ منظرِ عام پر آگیا، وفاقی آئینی عدالت کے قیام سمیت اہم تجاویز شامل

اسلام آباد (طارق محمود سمیر) پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے 27ویں آئینی ترمیمی بل 2025 کا تفصیلی مسودہ سامنے آگیا ہے، جس میں آئین کے 48 مختلف آرٹیکلز میں اہم ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ مجوزہ ترمیم کے ذریعے ایک نئی عدالت “فیڈرل کونسٹی ٹیوشنل کورٹ” کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جو سپریم کورٹ سے علیحدہ ایک نیا آئینی فورم ہوگا۔

ترمیمی بل کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا صدر مقام اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ اس کے چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت تین سال مقرر کی گئی ہے۔ ججز 68 برس کی عمر میں ریٹائر ہوں گے۔

بل کے تحت آئینی عدالت کو وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات کے فیصلے، آئین کی تشریح، اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات سننے کا اختیار دیا جائے گا۔ آئین کا آرٹیکل 184، جو سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار دیتا ہے، ختم کرنے کی تجویز بھی مسودے میں شامل ہے۔

آرٹیکل 175 میں ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی شق شامل کی گئی ہے، جبکہ سپریم کورٹ کے کچھ آئینی اختیارات اس نئی عدالت کو منتقل کیے جائیں گے۔

آرٹیکل 175A میں ججز کی تقرری کے لیے نیا طریقہ کار تجویز کیا گیا ہے، جس کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ دونوں کے چیف جسٹس شامل ہوں گے۔ مسودے کے مطابق دونوں عدالتوں کے فیصلے ایک دوسرے پر لازم نہیں ہوں گے، تاہم آرٹیکل 189 میں ترمیم کے بعد آئینی عدالت کے فیصلے تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔

بل میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیلِ نو بھی تجویز کی گئی ہے، جس میں سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس بطور ارکان شامل ہوں گے۔

اہم ترمیم آرٹیکل 243 سے متعلق ہے، جس کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا، جبکہ آرمی چیف کو “چیف آف ڈیفنس فورسز” کا اضافی عہدہ دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ “فیلڈ مارشل” کو قومی ہیرو کا درجہ دینے اور تاحیات مراعات دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔

آرٹیکل 93 کے تحت وزیرِاعظم کو سات مشیروں کی تقرری کا اختیار ملے گا، جبکہ آرٹیکل 130 میں وزرائے اعلیٰ کے مشیروں کی تعداد میں اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 206 کے مطابق، سپریم کورٹ یا آئینی عدالت میں تقرری سے انکار کرنے والا جج ریٹائر تصور کیا جائے گا، جبکہ آرٹیکل 209 میں سپریم جوڈیشل کونسل کے نئے قواعد 60 دن میں تیار کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔

آرٹیکل 175B سے 175L تک نیا باب شامل کیا جائے گا جس میں وفاقی آئینی عدالت کے اختیارات اور طریقہ کار واضح طور پر بیان ہوں گے۔ اسی طرح آرٹیکل 176 تا 183 میں سپریم کورٹ سے متعلق اصطلاحات میں تبدیلی اور آرٹیکل 186 اور 191A کو حذف کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق آئینی عدالت کا ایک مشاورتی دائرہ کار بھی متعین کیا جائے گا، تاکہ وفاقی اداروں کو آئینی نوعیت کے معاملات میں رائے فراہم کی جا سکے۔

سیاسی حلقے اس ترمیمی بل کو پاکستان کے عدالتی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں، جس سے سپریم کورٹ کے دائرہ کار، عدالتی اختیارات، اور ججز کے طریقہ تقرری میں بنیادی فرق متوقع ہے۔