اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) آئین میں ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں سے الگ الگ دو تہائی اکثریتی حمایت درکار ہو گی۔
اس وقت آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ سے 64 اور قومی اسمبلی سے 224ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔ سینٹ میں اپوزیشن بینچز پر30 ارکان موجود ہیں جو ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کی مخالفت کریں گے۔
سینیٹ پارٹی پوزیشن کے مطابق حکومتی بینچز پر اس وقت پیپلزپارٹی 26 سینٹرز کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ حکومتی بینچز پر مسلم لیگ ن کے 20، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 ارکان ہیں، حکومتی بینچز پر ایم کیو ایم پاکستان کے 3، نیشنل پارٹی کا ایک اور پاکستان مسلم لیگ ق کا بھی ایک سینیٹر ہے۔
اس کے علاوہ حکومتی بینچز پر 3 آزاد سینیٹرز ہیں جن میں سینیٹر عبدالکریم، سینیٹر عبدالقادر اور محسن نقوی ہیں۔ تین سینیٹرز انوار الحق کاکڑ، اسد قاسم اور سینیٹر فیصل واوڈا نہ حکومتی اور نہ ہی اپوزیشن بینچز پر بیٹھتے ہیں۔ یہ تینیوں سینیٹرز حکومت کو ووٹ دیتے ہیں، اس طرح سینیٹ میں حکومت کو 61 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔









