اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سینیٹ میں قائد ایوان اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر علی ظفر قابلِ احترام ہیں، ان کے والدِ گرامی کے ساتھ بھی طویل عرصہ پارلیمنٹ میں کام کیا۔ تاہم، اگر ہم پرانی باتوں کا حساب کھولیں تو اس کی کوئی حد نہیں رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد تحریک کے وقت آئینی و پارلیمانی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو اچانک تحلیل کیا گیا۔ اُس وقت اسپیکر نے ایک ماہ تک اجلاس بلانے کی زحمت بھی نہیں کی۔ “غلطیوں سے درستیاں پیدا نہیں ہوتیں،
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 27ویں آئینی ترمیم سینیٹ سے منظور ہو چکی ہے اور قومی اسمبلی میں کچھ تکنیکی اصلاحات کے بعد دوبارہ پیش کی گئی۔ آرٹیکل 6 میں جو اہم کمی تھی، اسے اب درست کیا گیا ہے، جس سے آئینی عمل مزید مضبوط ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ “جب پنجاب حکومت گرانے کی بات آتی ہے تو عدلیہ کی مداخلت دکھائی نہیں دیتی، مگر جب سیاسی مفاد ہو تو فیصلے بھی اسی کے مطابق آتے ہیں۔ اگر آئین کہتا ہے کہ ووٹ کاؤنٹ ہوگا، تو پھر سزا بھی اسی کے مطابق ہونی چاہیے۔”
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئین کے مطابق آرٹیکل 63-اے خود بخود لاگو نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ایک مکمل قانونی عمل ہے۔ پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اطلاع دینا، تصدیق کے بعد الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجنا — یہ سب آئینی تقاضے ہیں۔ “اگر کسی رکنِ پارلیمان کا ضمیر کہتا ہے کہ اسے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا ہے تو دے سکتا ہے، لیکن پھر اس کی ایک قیمت ہے — یعنی نشست سے ہاتھ دھونا۔”
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان اگر واقعی آئینی عمل پر یقین رکھتے تو کمیٹی اجلاسوں میں شرکت کرتے اور اصلاحی تجاویز دیتے، مگر بدقسمتی سے وہ صرف بیانیہ بنانے پر اکتفا کرتے ہیں۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ “ہمیں پارلیمنٹ کو مضبوط بنانا ہے، نہ کہ اسے تقسیم کرنا۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حصہ ہے، لیکن آئین اور قانون سب سے بالاتر ہیں۔”









