اسلام آباد: (نیوزڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے ججز کیخلاف بیانات پر وکیل ایمان مزاری کیخلاف دائر توہین عدالت درخواست پر فیصلہ جاری کر دیا۔عدالت نے ضلعی عدلیہ کے ججز کے خلاف بیانات پر وکیل ایمان مزاری کے خلاف دائر توہین عدالت درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے گیارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا، شہری حافظ احتشام نے ایمان مزاری کے خلاف توہین عدالت درخواست دائر کر رکھی تھی۔
عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست خارج کر دی، پٹیشنر کے مطابق ایمان مزاری نے کہا تھا کہ ٹرائل کورٹس کے ججز نے توہین مذہب کیسز کے ملزمان کے دباؤ میں آ کر سزائیں دیں۔
فیصلے کے مطابق ایمان نے کہا ملزمان کے خلاف کیسز ثابت نہ ہوئے لیکن ججز نے عوامی دباؤ اور خوف کے باعث سزائے موت سنائی، نیشنل پریس کلب کے باہر 27 ستمبر کو ایمان مزاری سے منسوب تقریر کے متن کو بھی عدالتی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق ایمان مزاری کی ججز سے متعلق تقریر حقائق کے برخلاف اور توہین عدالت ہے، توہین عدالت تین قسم کی ہوتی ہے، سول ، کریمنل اور جوڈیشل توہین عدالت، موجودہ درخواست عدالتی حکم عدولی نہیں بلکہ عدالت کو سکینڈلائز کرنے سے متعلق جوڈیشل توہین عدالت کی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایمان مزاری سے منسوب الفاظ سنی سنائی بات یا رائے سے متعلق ہیں جو آزادی اظہار رائے کے آئینی حق میں آتے ہیں، ایمان مزاری نے اس عدالت کے کسی جج کا نام نہیں لیا، نا ہی ٹرائل کورٹ کے کسی جج کو نام لے کر ٹارگٹ کیا۔
عدالت کے مطابق ایمان مزاری نے صرف عمومی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، ایسا کوئی مواد نہیں جس سے ثابت ہو کہ ایمان مزاری نے عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کہا، توہین عدالت کا مقدمہ صرف اسی صورت بنتا ہے جب عدلیہ کو بدنام کرنے کا واضح ارادہ ہو۔









