کراچی (نیوزڈیسک): آج کل مارکیٹ میں اصلی اور پلاسٹک کے انڈوں کا شور ہے اس میں کیسے فرق کریں غذائی ماہر نے بتا دیا۔
پاکستان میں اصل کے ساتھ کھانے پینے کی نقل بھی دستیاب ہوتی ہے، اسی لیے اکثر مشہور اشیا پر واضح لکھا ہوتا ہے کہ نقالوں سے ہوشیار۔
آج کل پاکستان میں اصلی اور نقلی انڈوں کا شور ہے۔ ایک بڑا طبقہ ہے، جس کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں پلاسٹک کے انڈے مل رہے ہیں، جس کی زردی اور سفیدی کی رنگت اور ساخت قدرے مختلف ہوتی ہے۔ تاہم انڈوں پر کہیں لکھا نہیں ہوتا کہ نقالوں سے ہوشیار تو وہ کس طرح اصل اور نقل کی پہچان کریں۔
اس حوالے سے اے آر وائی کے مقبول مارننگ شو ’’گڈ مارننگ پاکستان‘‘ میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے رہنما محسن بھٹی نے اہم گفتگو کی۔
محسن بھٹی کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ پلاسٹک کے انڈے کھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم انہیں ابال کر زمین پر پھینکیں تو وہ ربڑ کی گیند کی طرح اچھلتے ہیں۔
غذائی ماہر کا کہنا تھا کہ ہوتا یہ ہے کہ گرمیوں میں انڈوں کی کھپت کم ہو جاتی ہے، لیکن فارمی مرغی تو سارا سال انڈے دیتی ہے اور پروڈکشن جاری رہتی ہے۔ اس لیے پولٹری مالکان انہیں محفوظ رکھنے کے لیے کولڈ اسٹور میں رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب کئی ماہ بعد انہیں مارکیٹ میں فروخت کے لیے لایا جاتا ہے تو اس کی سفیدی اور زردی کی ساخت میں لچک آ جاتی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ پلاسٹک کے انڈے کھا رہے ہیں۔
غذائی ماہر نے بتایا کہ انڈوں میں یہ تبدیلی انہیں سرد خانے میں رکھنے کی وجہ سے آتی ہے، ورنہ پلاسٹک کا کوئی انڈا نہیں ہوتا۔ کیونکہ پلاسٹک کو ابالا نہیں جا سکتا۔ پلاسٹک کو نہ فرائی کیا جا سکتا ہے اور نہ آملیٹ بنا سکتے ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے رہنما نے کہا کہ جس طرح تازہ اور باسی پھل اور سبزی کے ذائقے اور ساخت میں تبدیلی آتی ہے، ایسے ہی تازہ اور دیر تک رکھے جانے والے انڈوں میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ تاہم وہ مرغی کے دیے ہوئے اصل انڈے ہی ہوتے ہیں، ناکہ پلاسٹک کے۔









