2026 فٹبال ورلڈ کپ کی تیاریوں میں دنیا بھر کے شائقین کی نظریں امریکا، میکسیکو اور کینیڈا پر مرکوز ہیں، مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں نے ٹورنامنٹ کی میزبانی کو مزید مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے۔ صرف 6 ماہ بعد شروع ہونے والے عالمی مقابلے سے پہلے ٹرمپ اپنے ہمسایہ میزبان ممالک کو ناراض کر چکے ہیں، ویزوں پر غیر معمولی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں اور متعدد شہروں سے میچز منتقل کرنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔
سفر کی پابندیاں اور فینز کی مشکلات
ورلڈ کپ کے دوران لاکھوں غیر ملکی شائقین کی آمد متوقع ہے، جن میں سے سب سے زیادہ امریکا پہنچیں گے کیونکہ 104 میں سے 82 میچ وہاں ہوں گے۔ لیکن ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں امیگریشن کریک ڈاؤن شدت اختیار کر چکا ہے، جس میں ملک گیر چھاپے، گرفتاریاں اور بڑے پیمانے پر ڈیپورٹیشن شامل ہیں۔
ادھر ایک واقعے میں افغان نژاد شخص پر دہشتگردی کے الزام کے بعد ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ تمام تھرڈ ورلڈ ممالک سے ہجرت کو مستقل طور پر روکنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
جون 2025 سے اب تک 19 ممالک جن میں ورلڈ کپ میں شریک ایران اور ہیٹی بھی شامل ہیں، امریکی سفری پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی پناہ گزینی درخواستیں غیر معینہ مدت تک مؤخر کر دی گئی ہیں۔
ایران نے واشنگٹن میں ہونے والی ورلڈ کپ ڈرا تقریب کے بائیکاٹ کی دھمکی بھی دی تھی کیونکہ امریکی حکام نے ان کے کئی مندوبین کو ویزا جاری نہیں کیا، تاہم بعد میں فیصلہ واپس لے لیا گیا۔
ویزوں کے لیے ’فاسٹ ٹریک‘ مگر مکمل چھوٹ نہیں
اگرچہ امریکا کا ویزا حاصل کرنے میں عام طور پر مہینوں لگتے ہیں، ٹرمپ نے ورلڈ کپ ٹکٹ ہولڈرز کے لیے خصوصی تیز رفتار طریقۂ کار متعارف کرایا ہے جس میں انہیں ویزا اپائنٹمنٹ میں ترجیح دی جائے گی۔
تاہم امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا ہے کہ ٹکٹ ہونے کے باوجود سخت جانچ پڑتال برقرار رہے گی۔
میچز منتقل کرنے کی دھمکیاں
ٹرمپ نے متعدد بار اعلان کیا ہے کہ وہ سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر ڈیموکریٹک پارٹی کی زیرِ انتظام شہروں سے میچز ہٹا سکتے ہیں۔ خطرے میں آنے والے شہروں میں بوسٹن (7 میچ)، سان فرانسسکو اور سیائٹل (6، 6) جبکہ لاس اینجلس (8 میچ) شامل ہیں۔
میچوں کی منتقلی فیفا کے لیے شدید انتظامی بحران پیدا کر سکتی ہے، کیونکہ ہزاروں شائقین پہلے ہی اپنی متوقع میزبان شہروں کے مطابق ٹکٹ، رہائش اور سفری انتظامات کر چکے ہیں۔
قانونی اعتبار سے بھی میزبان شہروں کے کنٹریکٹ صرف قدرتی آفات، جنگ یا بڑے فسادات جیسے حالات میں ہی منسوخ کیے جا سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے رواں سال کئی ڈیموکریٹک شہروں میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کی ہے، جبکہ امیگریشن ایجنسی کے چھاپوں نے بالخصوص لاطینی کمیونیٹیز میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے جو ورلڈ کپ کے دوران برقرار رہ سکتی ہے۔
کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ کشیدہ تعلقات
ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے باوجود ٹرمپ حکومت کا رویہ دونوں ہمسایہ اتحادیوں کے لیے سخت رہا ہے۔ کینیڈا اور میکسیکو کی متعدد مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے جا چکے ہیں، جبکہ ٹرمپ نے کینیڈا کو ضم کرنے کی دھمکی اور میکسیکو میں منشیات گروہوں کے خلاف ممکنہ امریکی فضائی کارروائی کا اشارہ بھی دیا ہے۔
سرحدی تنازعات، اقتصادی پابندیوں اور سیاسی تناؤ نے اس ٹورنامنٹ کو پہلے ہی تاریخ کے سب سے مشکل ورلڈ کپس میں سے ایک بنا دیا ہے، جو پہلی بار 3 ممالک اور ریکارڈ 48 ٹیموں کی میزبانی میں منعقد ہو رہا ہے۔









