اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے کہا ہے کہ گزشتہ سال انہیں خدشہ تھا کہ معاشی حالات گرمیوں تک ناقابلِ قابو ہو سکتے ہیں، تاہم حکومت کی بروقت اور مؤثر پالیسیوں کے باعث معیشت کو سنبھال لیا گیا اور ملک ایک بڑے بحران سے نکل آیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس وقت کی ان کی ذاتی رائے تھی، لیکن عملی طور پر حکومت نے معیشت کو استحکام کی راہ پر ڈال دیا۔
اسلام آبادمیں نیوزکانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ حکومت نے ایک نیا آئی ایم ایف پروگرام حاصل کیا، جس کی بنیاد گزشتہ سال کے بجٹ میں رکھی گئی۔ اس پروگرام کے تحت طے کیے گئے اہداف، بالخصوص پرائمری بیلنس کا ہدف، مالی سال 2025 میں کامیابی سے حاصل کیا گیا اور اس کے لیے کسی منی بجٹ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جون 2024 میں بجٹ کے اعلان کے وقت یہ دعوے کیے جا رہے تھے کہ بجٹ اتنا سخت ہے کہ منی بجٹ کے بغیر اہداف حاصل نہیں ہو سکیں گے، مگر حکومت نے یہ تاثر غلط ثابت کر دیا۔
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے کامیاب ریویوز اور بورڈ سے منظوری نے پاکستان کی معاشی ساکھ کو بہتر بنایا۔ ان کے مطابق جب کوئی ملک میکرو اکنامک استحکام کے مرحلے سے گزرتا ہے تو آئی ایم ایف پروگرامز کا کامیاب ہونا عالمی ریٹنگ ایجنسیوں، کثیرالجہتی ترقیاتی اداروں اور دو طرفہ اقتصادی تعلقات پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس استحکام اور ساختی اصلاحات کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح 22 سے 24 فیصد سے کم ہو کر سنگل ڈیجٹ تک آ گئی، جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم ہوئے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ گزشتہ مالی سال میں ایف بی آر کی ریونیو گروتھ 26 فیصد رہی اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 8.8 فیصد سے بڑھ کر 10.3 فیصد تک پہنچ گئی، جو ڈیڑھ فیصد اضافہ ہے اور ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تمام کامیابیاں ایسے سال میں حاصل ہوئیں جو بنیادی طور پر اسٹیبلائزیشن کا سال تھا۔ اسی پس منظر میں موڈیز، فِچ اور ایس اینڈ پی سمیت عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی خودمختار کریڈٹ ریٹنگ کو اپ گریڈ کیا، جس سے معاشی فضا میں اعتماد بحال ہوا اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا۔
بلال اظہر کیانی نے کہا کہ اب اسٹیبلائزیشن کے بعد اگلا بڑا چیلنج پائیدار معاشی ترقی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں استحکام کے بعد معیشت زیادہ تر کنزمپشن لیڈ گروتھ کی طرف جاتی رہی، جس کے باعث درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ آیا، نتیجتاً دوبارہ آئی ایم ایف جانا پڑا۔ اس بار حکومت، خصوصاً وزیراعظم شہباز شریف، اس بات پر توجہ دے رہے ہیں کہ آئندہ معاشی ترقی نجی شعبے کی قیادت میں ہو، برآمدات میں اضافہ کرے اور پائیدار بنیادوں پر استوار ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ایکسپورٹ لیڈ گروتھ ناگزیر ہے تاکہ معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی مضبوط ہوں اور ترقی کے فوائد کمزور طبقات تک پہنچیں۔ ان کے مطابق اس نوعیت کی ترقی روزگار کے مواقع پیدا کرے گی اور عوام کی قوتِ خرید میں اضافہ کرے گی۔
وزیر مملکت نے بتایا کہ اسی وژن کے تحت وزیراعظم نے نجی شعبے کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کیا اور پہلی مرتبہ نو ورکنگ گروپس تشکیل دیے گئے، جن میں کاروباری برادری کے نمائندوں نے قیادت کی۔ ان گروپس نے مختلف وزارتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد اپنی تجاویز وزیراعظم کے سامنے پیش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے کاروباری شخصیات کے ساتھ تین گھنٹے طویل بند کمرہ اجلاس بھی کیا تاکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دی جا سکیں۔
انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ ورکنگ گروپ کی سفارش پر برآمدات پر عائد 0.25 فیصد سرچارج فوری طور پر ختم کر دیا گیا، جو برسوں سے ایکسپورٹ ٹرن اوور پر نافذ تھا۔ وزیراعظم کی ہدایت پر یہ فیصلہ چند دنوں میں نافذ بھی کر دیا گیا، جس سے برآمد کنندگان کو براہِ راست ریلیف ملا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ دنوں میں انرجی، ریلوے، آئی ٹی، پورٹس اور زراعت سے متعلق دیگر ورکنگ گروپس کی تجاویز بھی سامنے آئیں گی۔
بلال اظہر کیانی نے اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت نے بارہا ملک کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی نے نہ صرف اپنے دورِ حکومت کے اختتام پر آئی ایم ایف پروگرام کو سبوتاژ کیا بلکہ بعد ازاں بھی آئی ایم ایف کو خطوط لکھ کر پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی بھی قیمت پر اقتدار واپس حاصل کیا جائے، چاہے اس کے لیے ملک کو ڈیفالٹ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے مسلسل ریاستی اداروں، مسلح افواج اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خلاف بیانیہ اختیار کیے رکھا، جس سے ملک کے دفاع اور سفارتی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دینے والی افواج کے بجائے ان کے خلاف مہم چلانا ناقابلِ قبول ہے۔
وزیر مملکت نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پاک فوج کی جانب سے خود احتسابی کی ایک مثال قائم کی گئی، جب ایک سینئر افسر کے خلاف 15 ماہ طویل شفاف عدالتی کارروائی کے بعد سزاؤں کا اعلان کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ ادارے قانون اور احتساب پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
اپنے بیان کے اختتام پر بلال اظہر کیانی نے کہا کہ حکومت دفاعی، سفارتی اور معاشی محاذ پر استحکام اور بہتری کے عمل کو جاری رکھے گی اور ان شاء اللہ پاکستان ترقی، استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن رہے گا۔









