نیویارک (انٹرنیشنل ڈیسک)دنیا کی لگ بھگ 10 فیصد آبادی ہر رات بھوکے پیٹ سونے کے لیے لیٹتی ہے۔
2019 سے اب تک خوراک کی شدید کمی کے شکار افراد کی تعداد 13 کرو ڑ50 لاکھ سے بڑھ کر ساڑھے 34 کروڑ تک پہنچ گئی ہے جبکہ 80 ممالک کے 50 کروڑ شہری قحط سالی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
یہ بات اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ای پی) کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتائی گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے بعد سے دنیا میں خوراک کی قلت کے شکار افراد کی تعداد میں 15 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ یوکرین جنگ کے باعث متاثرہ ممالک میں قحط سالی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال عالمی سطح پر خوراک کی شدید قلت کے شکار افراد کی تعداد 82 کرو ڑ80 لاکھ تک پہنچ گئی اور 2020 کے مقابلے میں 4 کروڑ 60 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ روس پر یوکرین کے حملے کے بعد ایندھن، خوراک اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث بھوک سے متاثر افراد میں اگلے سال تک مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے بتایا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ اس تعداد میں آنے والے مہینوں میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایندھن، خوراک اور کھاد کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے جو یوکرین بحران کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس صورتحال سے عالمی سطح پر عدم استحکام، قحط سالی اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی جیسے حالات کا سامنا ہوسکتا ہے، تباہی سے بچنے کے لیے ہمیں آج ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے مطابق 5 سال سے کم عمر ساڑھے 4 کروڑ بچے کم خوراکی کی سب سے خطرناک قسم کا سامنا کررہے ہیں جس سے ان بچوں کی موت کا خطرہ 12 گنا زیادہ بڑھ چکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر 14 کروڑ 90 لاکھ کی جسمانی نشوونما ضروری غذائیت کی کمی کے باعث رک جاچکی ہے۔
اقوام متحدہ نے 2030 تک دنیا سے بھوک کے خاتمے کا ہدف طے کیا ہوا ہے مگر موجودہ حالات کے باعث خدشہ ہے کہ اس وقت تک دنیا میں خوراک کی کمی کے شکار افراد کی تعداد 67 کرو ڑکے قریب ہوسکتی ہے۔
عالمی ادارے نے ممالک پر زور دیا کہ وہ زرعی پالیسی میں فیصلہ کن تبدیلی کریں جس سے قحط سالی کو روکنا ممکن ہوسکتا ہے۔









