بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

متنازع قانون، لاہور ہائیکورٹ نے پراپرٹی آرڈیننس معطل کردیا

لاہور(نیوزڈیسک) ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نےعبوری حکم کے ذریعے پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف امووایبل پراپرٹی آرڈیننس 2025 کے نفاذ کو معطل کر دیا، جس کے تحت ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں قائم کمیٹیوں کو جائیداد کے تنازعات کے فیصلے کا اختیار دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے یہ حکم پیر کو عابدہ پروین اور دیگر کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جاری کیا، جن میں آرڈیننس کے تحت جائیداد سے متعلق کیے گئے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔

عبوری حکم کے ذریعے نئے قانون کے تحت جائیدادوں کا قبضہ چھیننے سے متعلق تمام فیصلے بھی معطل کر دیے گئے۔

قانون پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ کسی کو حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ اگر یہ قانون برقرار رہا تو جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں خالی کرایا جا سکتا ہے، بظاہر کچھ لوگ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب کوئی معاملہ سول عدالت میں زیرِ سماعت ہو تو ایک ریونیو افسر کس طرح جائیداد کا قبضہ منتقل کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نئے قانون نے سول نظام، شہری حقوق اور عدالتی بالادستی کو ختم کر دیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگر اختیار حکام کے ہاتھ میں ہو تو وہ آئین کو بھی معطل کر دیں۔

انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ اگر اس قانون کے تحت ڈپٹی کمشنر کسی شخص کے گھر کا قبضہ کسی اور کو دے دے تو متاثرہ فرد کو اپیل کا حق بھی حاصل نہیں، ان کے مطابق نئے قانون میں ہائیکورٹ کو بھی ایسے معاملات میں حکمِ امتناع دینے کا اختیار نہیں دیا گیا۔

سماعت کے دوران پنجاب کے چیف سیکریٹری اور دیگر سرکاری افسران عدالت میں موجود تھے، تاہم پنجاب ایڈووکیٹ جنرل پیش نہ ہوئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وہ علالت کے باعث حاضر نہیں ہو سکے۔

اس پر چیف جسٹس عائشہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ وہ خود بھی بیمار ہیں اور انہیں بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا گیا ہے، اس کے باوجود وہ عدالت میں مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں۔

بعد ازاں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ معاملے کی مزید سماعت کے لیے فل بینچ تشکیل دیا جائے گا اور سماعت ملتوی کر دی گئی۔

واضح رہے کہ مذکورہ آرڈیننس کو 31 اکتوبر کو پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز نے منظور کیا تھا، جس کے تحت زمین سے متعلق تنازعات کو 90 دن میں نمٹانے کی شرط رکھی گئی ہے۔

یہ آرڈیننس لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس سے قبل ایک سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پنجاب انفورسمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت قائم نئی فورس کے کردار پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

انہوں نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ پٹواری اور اسسٹنٹ کمشنر جج بننے کی خواہش رکھنے لگے ہیں، اور اس بات پر بھی سوال اٹھایا تھا کہ ایک پٹواری کو ایسے معاملے پر کارروائی کا اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے جو پہلے ہی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہو۔