بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

حکومت کا کام کاروبار چلانا نہیں، نجی شعبہ بہتر انداز میں ایئر لائن چلا سکتا ہے،محمد علی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)مشیرِ نجکاری محمد علی نے کہا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا موجودہ عمل گزشتہ ناکام کوشش کے بعد چھ ماہ کی مسلسل محنت، پیشہ ورانہ جانچ پڑتال اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے مکمل تعاون سے پایۂ تکمیل تک پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پورے عمل میں حکومتی اداروں، سرمایہ کاروں، کنسورشیمز اور بین الاقوامی ماہرین نے حصہ لیا جبکہ وزیراعظم، کابینہ، ڈپٹی وزیراعظم، فیلڈ مارشل اور دیگر اعلیٰ قیادت کی مسلسل رہنمائی شامل رہی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد علی کا کہنا تھا کہ اس بریفنگ کا مقصد قوم کے سامنے پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق مکمل تصویر پیش کرنا ہے تاکہ ماضی، حال اور مستقبل کے تمام پہلو واضح کیے جا سکیں اور عوام کے ذہنوں میں موجود سوالات کے جواب دیے جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کبھی دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ “گریٹ پیپل ٹو فلائی ودھ، باکمال لوگ لاجواب سروس” جیسے نعرے محض الفاظ نہیں تھے بلکہ ایک وقت میں پی آئی اے کی حقیقی عکاسی کرتے تھے۔ ایک دور میں پی آئی اے کے پاس 50 سے زائد طیارے تھے، تاہم آج صرف 18 طیارے آپریشنل ہیں جبکہ قومی ایئر لائن کو 100 سے زائد طیاروں کی ضرورت ہے۔

مشیرِ نجکاری کے مطابق نجکاری کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کاروبار نجی شعبہ بہتر انداز میں چلا سکتا ہے، جبکہ حکومت کا کردار پالیسی سازی تک محدود ہونا چاہیے۔ نجکاری کے بعد نئی سرمایہ کاری آئے گی، نئے طیارے شامل ہوں گے، بیڑے کی بحالی ہوگی اور سروس کا معیار بہتر بنایا جائے گا۔

محمد علی نے نجکاری کے عمل میں شریک تمام کنسورشیمز اور سرمایہ کاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ عارف حبیب گروپ کی قیادت میں کنسورشیم نے کامیاب بولی دی۔ اس کے علاوہ لکی گروپ، اپکو گروپ، فوجی فرٹیلائزر اور دیگر اداروں کی شرکت سے شفاف اور مسابقتی بولی ممکن ہوئی۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پی آئی اے صرف 10 ارب روپے میں فروخت کر دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو مجموعی طور پر 55 ارب روپے کی ویلیو حاصل ہوئی ہے، جس میں 10 ارب روپے نقد اور 45 ارب روپے مالیت کی ایکویٹی شامل ہے۔ اس کے علاوہ نئے خریدار کی جانب سے 125 ارب روپے کی سرمایہ کاری پی آئی اے میں کی جائے گی، جس سے قومی ایئر لائن کی مجموعی ویلیو 180 ارب روپے بنتی ہے۔

مشیرِ نجکاری نے وضاحت کی کہ پی آئی اے کے بیشتر طیارے پرانے اور لیز پر ہیں۔ مجموعی 33 طیاروں میں سے صرف 6 طیارے پی آئی اے کی ملکیت ہیں جبکہ باقی لیز پر حاصل کیے گئے ہیں۔ بیڑے میں شامل زیادہ تر طیاروں کی عمر 25 سال کے قریب ہے، جس کے باعث ان کی مارکیٹ ویلیو کم ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے سب سے قیمتی اثاثے اس کے لینڈنگ رائٹس ہیں، جو دنیا کے 97 ممالک میں ایئر سروس معاہدوں کی صورت میں موجود ہیں۔ اس وقت پی آئی اے سالانہ تقریباً 40 لاکھ مسافروں کو سروس فراہم کر رہی ہے اور ہفتہ وار 240 پروازیں آپریٹ کی جاتی ہیں۔

محمد علی کے مطابق پی آئی اے کو گزشتہ ایک دہائی میں شدید مالی نقصان کا سامنا رہا۔ 2015 سے 2024 کے دوران قومی ایئر لائن کو 500 ارب روپے سے زائد نقصان ہوا، جو بالآخر قومی خزانے سے پورا کیا گیا۔ 2024 تک پی آئی اے کی مجموعی واجبات 700 ارب روپے تک پہنچ چکی تھیں، جن میں سے طویل المدتی قرضے نجکاری سے قبل الگ کیے گئے تاکہ ادارہ قابلِ فروخت بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ نجکاری کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا، عالمی سطح پر اظہارِ دلچسپی طلب کی گئی، روڈ شوز منعقد ہوئے، سرمایہ کاروں کی مالی، انتظامی اور قانونی اہلیت کا مکمل جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد ہی بولی کا مرحلہ مکمل کیا گیا۔

مشیرِ نجکاری کا کہنا تھا کہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کے لیے ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق نئے سرمایہ کار آئندہ چار سال میں طیاروں کی تعداد 65 تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نجی شعبہ قومی ایئر لائن کو ایک بار پھر مستحکم بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

آخر میں محمد علی نے کہا کہ قومی وقار ایئر لائن کی ملکیت میں نہیں بلکہ اس کی کارکردگی میں ہوتا ہے۔ اگر بروقت نجکاری نہ کی جاتی تو خدشہ تھا کہ پی آئی اے مکمل طور پر آپریشنل صلاحیت کھو بیٹھے گی، تاہم اب درست وقت پر درست فیصلہ کیا گیا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔