بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

عمران خان جیسی زبان ماضی میں کسی پارٹی نے نہیں بولی، خواجہ آصف

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عمران خان جو لینگویج بول رہے ہیں،ماضی میں کسی پارٹی نے ایسی زبان نہیں بولی، بات چیت سے کوئی راستہ کھل سکتا ہے تو ساری چیزیں ریورس کرکے ہم ایک نیا اسٹارٹ لے سکتے ہیں جس میں ماضی کو واش کیا جائے اور حال کو بھی ہم کسی نہ کسی طرح پاک صاف کریں،

آرٹیکل 6 سے متعلق جب معاملہ کابینہ میں آئے گا تو اپنی رائے دوں گا، عمران خان کے ہاتھ صاف نہیں، چارسال کرپشن کی سرپرستی کی، یہ چار سال میں ملک کے ساتھ کیا ہوگیا جو اتنی تباہی ہوئی ، یہ کون طے کررہا ہے کہ کون حق اور کون باطل ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ سے گفتگو کررہے تھے۔پروگرام کی تفصیلات یوں ہے۔شاہزیب خانزادہ: خواجہ صاحب، تلخ حقیقت ہے کہ اداروں کے منہ کو خون لگ گیا ہے، آپ کو تحریک انصاف کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہئے کہ آئیں ایک معاہدہ کرتے ہیں اور آئندہ ملک کی سیاست کو درست کرتے ہیں یا آرٹیکل چھ لگانا چاہئے جو آپ لگانے جارہے ہیں؟خواجہ آصف: جہاں تک گفتگو کرنے یا راستہ تلاش کرنے کا اس ملک کی جو 75سالہ پرابلمز ہیں، ہماری جو غلطیاں ہیں ان کا ازالہ کرنے کا،

اس ملک کے عوام کو سکھ کا سانس فراہم کرنے کا تو اس کیلئے کسی بھی قوت سے چاہے وہ کتنی بھی نیگیٹو ہو اس سے بات کرنے میں کوئی تعامل مجھے یا کسی بھی پارٹی کو یا کسی بھی سیاسی ورکر کو ہوگا، سیاست ایک مستقل ڈائیلاگ کا نام ہے، سیاست مستقل رابطوں کا نام ہے، سیاست رابطے قطع تعلق کرنا نہیں سکھاتی، آج بھی تمام اداروں کو مل کر، میں اداروں کی بات کررہا ہوں افراد کی بات نہیں کررہا، ملک کی بہتری کیلئے ، سیاسی ماحول کی کدورتیں دور کرنے کیلئے اگر مذاکرات ہوں آئین و قانون کی سربلندی کیلئے تو اس میں بالکل کسی قسم کا…شاہزیب خانزادہ: کچھ عرصہ پہلے تک آپ لوگ کہہ رہے تھے کہ ادارے مداخلت ختم کریں ، چاہے وہ عدلیہ کی حد تک ہو یا فوج کی حد تک ہو مداخلت ختم ہونی چاہئے، نام لے لے کر بات کررہے تھے، اب تحریک انصاف کہہ رہی ہے اور جب تحریک انصاف کہہ رہی ہے تو آپ ان کیخلاف آرٹیکل چھ کی بات کررہے ہیں؟خواجہ آصف: آرٹیکل چھ کی طرف جو ہے وہ فیصلے کا حصہ ہے، آرٹیکل پانچ کے تحت کارروائی فیصلے کا حصہ ہے، ہم بات نہیں کررہے وہ فیصلہ بول رہا ہے، میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں،

کابینہ نے آرٹیکل چھ کی کارروائی میرے خلاف approve کی تھی، سابق وزیر تعلیم شفقت محمود نے میرے خلاف پریس کانفرنس کی تھی آرٹیکل چھ کی، وہ تو میمن صاحب نے resist کیا اور وہ بات سیڑھیاں نہ چڑھ سکی، I donʼt want to pay them in the same coins لیکن ایک بات ضرور ہے کہ ہم اس کو initiate نہیں کریں گے لیکن آئین کی پاسداری کیلئے، آئین کی سربلندی کیلئے جو کچھ ہوا، جس دن ہم نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جس طرح پارلیمنٹ کو ٹریٹ کیا گیا ، پائوں تلے روندا گیا، آئین کو پارلیمنٹ کو اس ادارے کو اس کی کوئی نہ کوئی تو قیمت ادا کرے۔شاہزیب خانزادہ: آپ نے کہا کہ کوئی نہ کوئی قیمت ادا کی جائے، یہاں ایشو یہ ہے کہ آئین شکنی ہونا یا غیرآئینی کام ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں، جو فیصلہ ہے جو آرٹیکل 6کی بات کرتا ہے وہ اضافی نوٹ کرتا ہے اور پارلیمنٹ کی صوابدید پر چھوڑتا ہے، مگر otherwise فیصلہ آرٹیکل چھ کی بات نہیں کررہا اسے unconstitutional ضرور کہہ ہا ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ اس کا یہاں تک تدارک اور سدباب ضرور ہوا ہے کہ پارلیمنٹ بحال ہوئی، فیصلہ ریورس ہوا، آج عدالت نے کہا ہے کہ غیرآئینی قدم اٹھایا تھا اس وقت کے وزیراعظم نے، صدر نے اور ڈپٹی اسپیکر نے، آج آپ کی حکومت موجود ہے اور پارلیمنٹ موجود ہے، اس حد تک بہت نہیں ہے آپ کے خیال میں یہ بھی لازمی ہو کہ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہو

جو آج تک ڈکٹیٹر کے خلاف تو نہیں ہوئی مگر سیاستدان سیاستدان کے خلاف کررہے ہوں؟خواجہ آصف: میں آپ کی بات سے broadly ضرور اتفاق کرتا ہوں، minor سا مجھے اختلاف ہے لیکن اس کیلئے فضا تیار کرنا پڑے گی، اس وقت بھی عمران خان جو لینگویج بول رہے ہیں، ماضی میں بڑے بڑے تلخ ماحول میں ہم نے، میری قیادت نے، میری پارٹی نے یا دوسری پارٹیوں نے کبھی اس طرح کی زبان نہیں بولی تھی جو آج وہ بول رہے ہیں یا پچھلے چند دنوں سے جلسوں میں جو استعمال ہورہی ہے، اتنے تلخ ماحول کے اندر اور جو شخص سمجھتا ہو کہ پاکستان کا وجود، پاکستان میں ہر چیز کا وجود وہ اس کے اقتدار سے مشروط ہوگیا ہے تو اس سے کیا بات ہوسکتی ہے، لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ اگر بات چیت کے ساتھ کوئی راستہ کھل سکتا ہے تو اگر یہ ساری چیزیں ریورس کر کے ہم ایک نیا اسٹارٹ لے سکتے ہیں جس میں ماضی کو واش کیا جائے اور حال کو بھی ہم کسی نہ کسی طرح پاک صاف کریں تاکہ آئندہ نسلوں کیلئے یہ گالی گلوچ والی ، ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرنے، پبلک پلیس پر گالیاں دینا، خواتین کا گالیاں دینا، بچوں کا گالیاں دینا بند ہونا چاہئے، یہ جو ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا اس وقت بھی نہیں ہوتا تھا، اس کے بعد اتنی دفعہ اقتدار چھینا گیا، نواز شریف سے چھینا گیا، بینظیر شہید سے چھینا گیا مگر کسی نے گالی نہیں دی،

ہم نے عوامی مقامات پر غیرمحفوظ سیاستدانوں نے یا سیاسی ورکروں نے نہیں محسوس کیا، ہم ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں جاتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے، اس وقت جو سیاسی کدورت پیدا ہوگئی ہے، عمران خان نے ماحول میں تلخی پیدا کردی ہے، عمران خان رشتوں کو نہیں پہچانتا، وہ سیاسی رشتے یا سیاسی برادری کے رشتے جو ہیں ان کو چھوڑیں وہ اپنے خون کے رشتے نہیں پہچانتا، وہ ہمارے ساتھ سیاسی رشتوں کو کس طرح تسلیم کرے گا، میں ایک اور بات کرنا چاہوں گا، یہ space عمران خان نے خود لیا ہے، آج وہ اسٹیبلشمنٹ کو گالی دیتا ہے یا عدلیہ کو گالی دیتا ہے، جب بھی پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر اسٹیبلشمنٹ نے آکر بریفنگ دی یا اسٹیبلشمنٹ نے میٹنگز کنڈکٹ کیں چاہے وہ آئی ایس آئی کے میس میں تھی یا کمیٹی روم نمبر ٹو پارلیمنٹ ہائوس میں تھی وہ عمران خان کا کام تھا، وہ اس وقت وزیراعظم تھا، اس کو وہ میٹنگیں کنڈکٹ کرنا چاہئے تھیں، اس انسٹیٹیوشن کو مضبوط کرنا چاہئے تھا۔

شاہزیب خانزادہ: یہ جو آپ کا نکتہ ہے کہ آج عمران خان کہتے ہیں کہ ساری چیزیں وہ کرلیتے تھے ذمہ داری میرے اوپر آگئی ہے، اگر ذمہ داری وزیراعظم کی ہو تو کام بھی وہ کرے، لیکن بہت سے ایسے اقدامات ہیں جس کے صحافی بھی عینی شاہد ہیں کہ عمران خان نے کہا کہ ہاں جی یہ کام میں نے خود اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردیا تھا، جن اجلاسوں کی آپ بات کررہے ہیں وہ بھی درست ہے کہ عمران خان نے خود یہ ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کردی تھی، وہ خود اجلاسوں میں نہیں آتے تھے، یہ بھی بات درست ہے کہ اس وقت بھی عمران خان کی بات میں تضاد ہے، وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میرے حق میں مداخلت کرو مگر تحریک انصاف تنقید بھی کررہی ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ تحریک انصاف کی تنقید درست ہے ان کے بیانات میں جتنا بھی تضاد ہو کہ اس ملک کا جو یہ حال ہوا ہے یہ جرنیلوں کی مداخلت اور عدالت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے، بھگتا سیاستدان نے ہے بدنام بھی سیاستدان ہوئے ہیں

مگر اس بات کو درست کرنے کی ضرورت ہے، اس ملک کی تاریخ ہے کہ ان دونوں نے اس ملک کا یہ حال کیا ہے؟خواجہ آصف: آپ جو بات کررہے ہیں میرا سیاسی کیریئر میں through out یہ اسٹینڈ رہا ہے، میں وقتاً فوقتاً اسمبلی میں، اسمبلی سے باہر ، میڈیا کے لوگوں کے سامنے یہ بات کرتا رہا، مگر میں نے بات ہمیشہ کی ہے اس کو ذاتیات پر لے کر نہ آیا، آپ میرے انٹرویوز سن لیں ذاتیات پر نہیں لایا کیونکہ میں اس معاملہ کو ٹرانزیکشن نہیں سمجھتا میں اس معاملہ کو ایک مستقل حل کی طرف لے جانا چاہتا ہوں جس کی بات آپ کررہے ہیں ، ایک broad agreement ہونا چاہئے یا ایسا حل ڈھونڈنا چاہئے جس میں ماضی کی تمام چیزوں کو بھلا کر، ان کا حل ڈھونڈ کر آگے بڑھنا چاہئے، یہ بالکل صحیح بات ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن یہ شخص جو ہے ایک طرف یہ بات کرتا ہے جو آپ کہہ رہے ہیں یا میں کہہ رہا ہوں لیکن ساتھ کہتا ہے کہ ادارے میری مدد کریں، اگر ادارے اس کی مدد نہ کریں تو اداروں کو گالی گلوچ دی جائے، اب چاہے وہ عدلیہ ہے چاہے وہ پارلیمنٹ ہے، چاہے وہ فوج ہے، اس کا نام لے لے کر، کسی کو کچھ کہتا ہے،

کسی کو کچھ کہتا ہے، میں سمجھتا ہوں یہ بندہ اتنا bitter ہوگیا ہے کہ اس کا equalibrium lose ہوگیا ہے، he lost his mental equalibrium میں پھر کہوں گا کہ اگر وہ اپنی ذات کے محور سے، اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر اس ملک کی سیاست، اس ملک کے قانون، اس ملک کے ادارے، ان کی بات کریں، آنے والی نسلوں کی بات کریں، ان کی عمر دیکھ لیں میری عمر دیکھ لیں دو چار سال کا فرق ہوگا، اور دوچار پانچ سال ، دماغی توازن تو ابھی بھی ان کا بگڑ گیا ہے، اللہ تعالیٰ سب کا دماغی توازن ٹھیک رکھے، یہ اقتدار بڑی خراب چیز ہوتی ہے یہ لوگوں کے دماغوں میں بیٹھ جاتی ہے اور پھر نکلتی نہیں ہے، ان کو رات کو سوتے وقت بھی اقتدار یاد آتا ہے، جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اقتدار تلملاتا رہتا ہے ان کو ہر وقت، ان کو سکون نہیں لینے دیتا، یہ حال ہے اس وقت عمران خان کا، میں آپ کی باتوں سے سوفیصد اتفاق کرتا ہوں، ماضی میں بڑی transgressions ہوئی ہیں، عدلیہ نے کی ہے، بھٹو کا جو عدالتی قتل ہے، اس سے پہلے نظریہ ضرورت ہے جس کا آج بھی ریفرنس دیا گیا ہے، عدالت اسے correct کررہی ہے، ماضی میں جو کچھ عدالتی فیصلے ہوئے ان کو compensate کررہی ہے، ایک نیا juirispudance write

کررہی ہے جو آئین و قانون کے مطابق ہے، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے، وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ نیوٹرل ہے لیکن ساتھ کہتے ہیں کہ یہ نیوٹرل نہیں رہ سکتے ان کو میرے ساتھ ہونا چاہئے، یہ کون فیصلہ کررہا ہے کہ حق و باطل کون ہے،سیاست میں کون لوگ فیصلہ کرتے ہیں، اگر ہمارا چیف جسٹس یا چیف آف اسٹاف اپنے اداروں کو اجتماعی طور پر اپنے اداروں کو آئینی و قانون کے راستے پر لے جارہا ہے تو یہ کون ہوتے ہیں یہ کہنے والے کہ میری مدد کرو، میرے ساتھ نیوٹرل نہ رہو، اگر نیوٹرل ہو تو یہ ہو اور ساتھ گالی دیتا ہے، یہ کہاں کی سیاست ہے۔شاہزیب خانزادہ: امید ہے ایسا ہی ہو کہ آئین کی طرف لے کر جارہے ہوں ادارے کے سربراہ، عدالتیں بھی اپنی وراثت ٹھیک کریں

کیونکہ ان کے مختلف فیصلوں میں ابھی بھی عجیب تضاد نظر آتے ہیں، مگر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل چھ ایک راستہ ہے، آپ کا کم از کم یہ مشورہ ہوگا کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی یا مخلوط حکومت کو یہ داغ اپنے ماتھے پر نہیں لینا چاہئے کہ سیاستدانوں نے سیاستدانوں کیخلاف آرٹیکل چھ چلایا جرنیلوں کے خلاف تو کبھی نہیں کرپائے؟خواجہ آصف: یہ معاملہ کابینہ یا پارلیمنٹ میں آئے گا تو ضرور اپنی رائے کا اظہا ر کروں گا، اس سے پہلے میڈیا پر میں اس رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہوں گا، میں چاہوں گا کہ اتفاق رائے ہماری برادری، سیاستدانوں کی برادری میں۔