بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

پارلیمنٹ کی بالادستی ناگزیر

پاکستانی سماج کا یہ المیہ ہے کہ یہاں کوئی بھی ادارہ اپنے ٹھکانے پر نہیں ہے ، پارلیمنٹ کی بالادستی کا سوال آج بھی موجود ہے ، اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کا ہونا بھی اپنی جگہ موجود ہے اور اب عدلیہ کی ساکھ پر بھی انگلی اٹھنے لگی ہے جبکہ میڈیا غیر جانبداری کی بجائے کسی نہ کسی سیاسی و غیر سیاسی گروپ کے ساتھ نتھی ہے،

بہت کم ایسے ذرائع ابلاغ کے ادارے ہیں جو غیر جانبداری کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں ۔ ایسے میں سماج کی مثالی اقدار اور روایات کا خاتمہ ہونا لازم ہو جاتا ہے اور جیسا کہ ہو چکا ہے۔اس وقت ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے ہیں جس کی کوئی اقدار نہیں ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی روایات ہیں ۔ہر روز ایک نئی قدراور روایت کے ساتھ سورج طلوع ہوتا ہے

اور غروب ہو جاتا ہے، روز کا ہی یہی معمول ہے جو بغیر کسی خلل کے چل رہا ہے ۔جب سے پاکستانی سماج میں اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل کا درجہ ملا ہے اس وقت سے پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کے اختیارات کا معاملہ سر اٹھانے لگا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست کے تینوں بڑے ادارے اپنی اپنی حیثیت میں اِدھر اُدھر ہو رہے ہیں تو پھر ’’آئین ‘‘کہاں کھڑا ہے جو ’’ تشریحات ‘‘کے عذاب میں مبتلا ہے اور اس عذاب میں مبتلا ہو کر اپنی حقیقی شکل و صورت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ۔ ایک طرف پارلیمنٹ اپنی بالا دستی کے حوالے سے نوحہ کناں ہے

تو دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ آئین کی تشریح کے نام پر اپنی غیر متزلزل بالادستی قائم کئے ہوئے ہے،ایسے میں اسٹیبلشمنٹ اپنی جگہ اُسی قدرو منزلت کے ساتھ موجود ہے جہاں وہ نیوٹرل ہونے سے پہلے پائی جاتی تھی ۔یعنی پاکستانی سماج میں ایک ایساسیاسی کھیل رچا ہوا ہے جو نہ ہی ڈھنگ سے شروع ہوتا ہے اور نہ ہی سلیقے سے اپنے انجام کو پہنچتا ہے ۔ لیکن اس کھیل میں شریک ہر کھلاڑی اپنی موج مستی میں ہے جبکہ اسی کھیل کے متاثرہ یعنی عوام اس بے نتیجہ اور بے ڈھنگے کھیل کو دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں۔یہ کیسی ریاست ہے جس کے عوام مایوس ہیں ، بے بس ہیں ،بے چین ہیں ،رورہے ہیں ، سینہ کوبی کررہے ہیں ، الغرض اپنی بد قسمتی پر ماتم کناں ہیں ۔دوسری طرف اہل سیاست ہیں ، نوکر شاہی ہے ، اور ملٹری بیوروکریسی ہے ، سب کے سب خوش و خرم ہیں ، پر کشش مراعات لے رہے ہیں ،

پر تعیش زندگی بسر کررہے ہیں ، یعنی غریب عوام کے ٹیکس پر عیاشیاں ہو رہی ہیں ، سیر سپاٹے ہو رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر اشرافیہ کے نام پر اول درجے کے شہری ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ایسی سیاست کو کیا کہا جائے جہاں قوم دو واضح تفریق رکھتی ہے، یعنی دو طبقاتی سماج ہے جہاں عام آدمی کی حیثیت وہی ہے جو تاج برطانیہ کے راج میں متحدہ ہندوستان کی رعایا کو حاصل ہوا کرتی تھی جبکہ اشرافیہ آج بھی عام آدمی پر حکومت کررہی ہے جو فرنگی سامراج کے دور میں دوسرے درجے کے حکمران ہوا کرتے تھے ۔کہنے کو آزادی حاصل ہوئے ساتھ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن اس دوران صرف فرق یہ آیا ہے کہ اول درجے کے حکمران اپنے ملک کولوٹ گئے ہیں اور دوسرے درجے کے حکمران آج بھی موجود ہیں یعنی دوسرے درجے کی طرز حکمرانی کا دور آج بھی رواں ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ عام آدمی کے گلے میں’’ غلامی کا طوق‘‘ آج بھی پایا جاتا ہے ۔بات کہیں سے کہیں نکلتی جا رہی ہے ۔بات ہو رہی تھی پارلیمنٹ کی بالادستی کی اور عدلیہ کے اختیارات کے حوالے سے کہ پاکستانی سماج میں کوئی بھی ادارہ اپنے ٹھکانے پر نہیں ہے اور یہ کہ ہر ایک ادارہ اپنے آئینی دائرہ کار سے کسی نہ کسی طورسے کھسکا ہوا ہے جسے اپنی اورصحیح جگہ پر لانے کی ضرورت ہے ،بصورت دیگر اداروں کے درمیان تصادم ناگزیر ہو جائیگا ۔لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ریاستی آئین کا از سر نو جائزہ لینے کی ضروت ہے اس کے بعد اس میں جو بھی ترامیم کرنی ہے یا لانی ہے، اس حوالے سے سوالات تشکیل کیے جائیں جو چاروں صوبوں کے ساتھ شیئر کیے جائیں اور صوبے ان سوالات کی روشنی میں اپنی اپنی اسمبلیوں میں اس پر بحث کرائے اور جو ابات کی شکل میں اپنی بھرپور مشاورت یعنی تجاویز وفاق کو ارسال کرے۔

اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں صوبوں کی تجاویز پر کھلی بحث کرائی جائے تا کہ ایک واضح بیانیہ سامنے آ سکے ۔اس طرح آئین کے از سرنو جائزے کی صورت میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک ’’نیا سماجی معاہدہ ‘‘بھی ممکن ہو سکے گا جو سماج کے ہر شعبے بالخصوص سیاسی و معاشی شعبوں کا مکمل احاطہ کرتا ہو گا ۔ آئین کی تشکیل نو کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار اور اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنے جیسے سوالات کے جواب بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ایک عوامی ریفرنڈم بھی کروایا جا سکتا ہے کہ’’ پارلیمنٹ کی بالادستی کو درپیش چیلنجز سے کیسے نمٹا جائے‘‘؟

اس حوالے سے براہ راست عوام سے تجاویز بھی طلب کی جا سکتی ہیں ۔پاکستانی سماج کو اس وقت جس طرح کے سیاسی و معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے وہ غیر معمولی نوعیت کے ہیں جو ریاست کی سالمیت اور خود مختاری کے حوالے سے مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں ایسے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور کسی کی روایتی جگالی اور فرسودہ نعروں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا ۔ بیرونی امداد اور غیرملکی قرضوں پر عیاشیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ہرایک طبقہ کا احتساب کرنا ہوگا

اور سب سے بڑھ کر پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں ہر طبقے اور ہر شعبے کے لوگوںکی نمائندگی پائی جاتی ہو، اگر جاگیردار ، وڈیرے ، زمیندار ، صنعت کار اور ساہو کار ہی پارلیمنٹ میں براجمان رہیں گے تو پارلیمنٹ کی بالادستی بھی آمریت ہی کی ایک شکل ہو گی ، لہٰذا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ میں پائی جانے والی کسی نہ کسی شکل کی آمریت کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے پارلیمنٹ کو اپنے اندر سرایت کرتی ہوئی آمریت کو ختم کرنا ہو گا ،تب جا کر پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے ، بلاشبہ ریاست کی بقاء اسی میں ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو ہر صورت مقدم بنایا جائے ،یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی ناگزیر ہے ۔