بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

مَردوں کے حقوق اورمعاشرہ

ہمارے ملک میں خواتین کے ایشوز پر خاصی بات چیت کی جاتی ہے اور اس بات چیت میں عورتوں کے ہزاروں حقوق گنوا دیے جاتے ہیں ۔عورتوں کے حقوق کی آواز اٹھانے کے لیے دنیا کے تمام لوگ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوجاتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کی پامالی کو روکا جائے تاہم مردوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی۔ مرد جو ایک گھر ،خاندان کا سربراہ ہوتا ہے، جسے پورے خاندان کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے،جس کے لوہے جیسے مضبوط کاندھوں پر پورا گھر منحصر ہوتا ہے۔بچپن سے لے کر جوانی تک لڑکوں کی تربیت بطور گھر کے بڑے سربراہ کی جاتی ہے، آغاز سے ہی بچے کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا کلچر کیاہے، رہن سہن کیاہے،کیسے آپ نے ماحول کو ،تہذیب کو قائم رکھنا ہے ۔ کیسے گھر کے رسم و رواج کے ساتھ گھر کے ہر فرد کو جوڑ کر رکھنا ہے۔ہمارے معاشرے میں شروع سے ہی مردوں کو خواتین پر فوقیت حاصل رہی ہے۔مرد حضرات نے ہمیشہ خاندان کی بھلائی ،بچوں کی پرورش ،اچھی تربیت اور زندگی کی تمام آسائشیں مہیا کرنے کے لیے کوششیں کیں اور اُن کاوشوں میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔بچپن سے بڑھاپے تک مرد نے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے جتنی قربانی دی شاید ہی کوئی دے پائے تاہم پھر بھی ان کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ نقطہ نظر پیش نہیں کیا جاتا ۔ہمارے معاشرے میں زندگی کی مشکلات کے سدباب کے لیے گھر کے ہر فرد کو محنت کرنی پڑتی ہے ،اچھی نوکری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں ۔تب جا کر وہ معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کے قابل ہوتاہے۔ویسے تو اللہ تعالی نے مرد کو ہر خوبصورت خوبی سے نوازا ہے لیکن چھ خوبیاں ایسی کہ جو مردکی ذات کو مزید نکھار دیتی ہیں۔جن میں پہلے تو اللہ نے مرد کو عدن کے باغ میں رکھا کہ وہ کام کرے اور اُس کی حفاظت کرے۔دوسری خوبی مرد کا مضبوط اور حوصلہ مند ہونا ہے جو زندگی کے کسی بھی موڑ پر ہار نہ مانے،تیسرااہم نقطہ ایک محبت کرنے والابیٹا،بھائی، شوہر اور باپ ہے جو ہر کٹھن مرحلے میں اپنی فیملی کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔عورت کو سمجھا جاتا ہے کہ زیادہ قربانیاں دینے والی شخصیت ہے لیکن مردبھی اس معاملے میں کسی طور کم نہیں ۔اپنے خاندان کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دینا خاصا مشکل کام ہے مگر مرد کو کرناپڑتا ہے اپنی ضروریات کو مات دے کر گھر والوں کے دل جیت لینااُن کے لیے قابل فخر بات ہوتی ہے،یہ مردکی چوتھی خاصیت ہے ۔پانچویں اور انتہائی خوبصورت خصوصیت اپنی ذات کو احتساب کے قابل ٹھہرانا ہے کہ کس حد تک مرد اپنی ذمہ داریاں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوا،کونسی ذمہ داریاں تھیں جنہیں وہ پورانہیں کرسکا اور زندگی کے اگلے مرحلے میں پورا کرنے کی سعی کرئے گا۔آخری خاصیت جس کے تحت مرد کے پاس بہت سے اعزاز ہیں جن میں ایک مردکا باپ ہونا،بیٹا بننا،پھربھائی اور شوہر جیسی حسین راہوں پر نکل پڑنا۔یہ تمام نکات ہر مردکی زندگی میں اپنی جگہ بناتے ہیں کچھ مرد اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں جبکہ چند اُن کو بخوبی نبھاتے ہیں ۔بہت سی جگہوں پر جہاں ہمیں لگتا ہے کہ مرد ہی خواتین سے بدتمیزی کرتے ہیں ،ایسا بالکل نہیں کئی خواتین اپنے دفاتر میں ،مالز یا کسی بھی جگہ پر مرد کو ہراساں کرتی ہیں اور بعد میںکہا یہ جاتا ہے کہ مرد ذات تو ہے ہی ایسی۔مرد چھوٹی عمر سے ہی مزدوری کے کام پر لگ جاتا ہے اور اپنی عمر کا وہ خوبصورت حصہ جو اُسے کھیل کود میں گزارنا چاہئے وہ ایک سنجیدہ مردکی حیثیت سے گزار دیتا ہے،کیوں ؟ کیونکہ اُس نے پورے خاندان کا نظام زندگی چلانا ہے ،کیااُسے اپنے بچپن کو گزارنے کا کوئی حق نہیں ۔ہمارے معاشرے میں مساوی حقوق یا ایکوالٹی کی بات کی جاتی ہے تو کیا مرد اپنے حقوق سے مبرا ہیںیا انہیں حقوق چاہئے ہی نہیں ۔ایکوالٹی کے حوالے سے سینکڑوں باتیں اور ٹاک شوز کیے جاتے ہیں کہ عورتوں کو حقوق دو،کسی سے جنسی زیادتی ہوئی ہے اُسے انصاف دو، دوسری جانب بہت سے ایسے کیسسز بھی نظر سے گزرے ہیں جن میں بچوں ،جوانوں اور مردوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تاہم وہ کیسسزقالین کے نیچے ہی دبے رہے اور کسی قسم کی کوئی شنوائی نہ ہوئی اور نہ ہی ہوتی ہے۔نہ ہی کسی این۔ جی ۔اونے اس مسئلے کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کروائی ہوگی اور نہ اُنہیں انصاف ملا۔مرد بھی اُسی طرح مساوی حقوق کے حقدار ہیں جیسے عورتیں ،فرق صرف اتنا ہے کہ مردوں کے حقوق کے حوالے سے کسی پلیٹ فارم پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی ،کوئی اُن کے حق میں آواز نہیں اُٹھاتا ،حقوق پر آواز بلند کرنے والے ادارے مردوں کو شاید تمام حقوق سے استثٰنی دیے ہوئے ہیں کہ اُن کی خاموشی ٹوٹنے کا نام نہیں لیتی۔ مردوں کو بھی خواتین کی طرح جینے کا حق ہے ، اپنی تمام ذمہ داریوںسے بنرد آزما ہونے کے بعد یا اُس سے پہلے اپنی زندگی کو بے فکری کے ساتھ گزارے۔ ہمارے معاشرے میں مردانہ حقوق پر بات چیت اور حقوق کی فراہمی کے حوالے سے این۔جی۔اوز اور سرکاری ادارے بنانے کی ضرورت ہے،مردوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ اور اہم جزو ہیں،ذمہ داریوں اور ڈیوٹی سے ۃت کر بھی اُن کی ایک زندگی ہے جسے وہ لطف اندازہو سکتے ہیں ۔اگر کوئی جنسی ہراسگی کا واقعہ نظر آئے جس میں عورت کی موجودگی کا خدشہ یا یقین ہو تو فوراََ قانونی کارروائی عمل میںلائی جائے بنا کسی تفریق کے جو قصوروار ہواُس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔پاکستا ن میں شرعی اور شہری قانون کا دوہرا نظام نافذ ہے جس کے مطابق آئین ِپاکستان کی شق ۲۵(۲) کے تحت عورت اور مرد دونوں کو مساوی حقوق کو تسلیم کرتاہے۔جس میں کوئی امتیاز نہیں ہوگا۔اسی قانون کو درست شرعی قانون کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہے، اس قانون کی پیروی کرتے ہوئے مردوں کو بھی ناانصافیوں پر انصاف ملنالازم ہے جیسے کہ پاکستان کے باقی باسی اپنے حقوق کی جنگ لڑکر کامیاب نظر آتے ہیں ۔