بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

انقلاب مررہاہے

گزشتہ شب’’ انقلاب ‘‘میرے خواب میں آیا ، وہ بہت اداس اور مایوس تھا ، اپنا غم سناتے سناتے وہ کہی باررونے لگا اور میں ہر بار اسے دلاسہ دے کر رونے سے روکتا رہا لیکن باربار کے رونے سے اسے ہچکی لگ گئی ۔ بس اسے ہچکی لگنی تھی کہ مجھے شرارت سوجھی اورموقع غنیمت جان کر اس سے جان چھڑانے کے لئے میں نے انقلاب سے کہہ دیا کہ لو تمہیں عوام یاد کرنے لگے ہیں اوراس بار تم برپا ہو کررہو گے ۔
اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے رخصت ہوتا ، کہنے لگا ’یار قاضی‘ میں ان دنوں بہت بیمار ہوں اور مجھ میں سکت نہیں ہے کہ میں برپا ہو سکوں لیکن وہ کیا دن تھے جب ملک میں ہر روز میرے نام کے چرچے تھے، ہر کوئی مجھے آواز دیتا تھا، میرے نام کے ترانے اور نغمے گنگنائے جاتے تھے ، شاعری ہوا کرتی تھی ، افسانے لکھے جاتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مجھے تاریخ کے اوراق سے نکال کر نئی امنگ اور جستجو دلائی جاتی تھی ، میرے نام کے نعرے اور دعوے ہوا کرتے تھے اور میرے آنے کی نوید سنائی جاتی تھیں لیکن یہ سماج اتنا ظالم ہے کہ ہر بار مجھے پکار کر پیچھے ہٹتاگیا ،ہر بار مجھے بیچ دوراہے پرچھوڑ کر رائے فرار اختیار کی گئی جبکہ میں اس امید کے ساتھ ہر بار ان کی آواز پر لبیک کہتا رہا کہ شاید اس بار میں برپا ہو سکوں گا ۔
میں اس امید ، آرزو اور انتظار میں بیمار پڑھ گیا ہوں ، سسک رہا ہوں اور مررہا ہوں ، شاید میری یہ تم سے آخری ملاقات ہو اور اس ملاقات کے بعد تم میری قل خوانی پر ضرور آنا ۔ ہاں ایسے جلسے جلوس اور تقاریب میں شرکت سے گریز کرنا جو میرے نام سے منسوب ہوں کیونکہ یہ جلسے جلوس اور تقاریب انقلاب برپا کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ تعزیتی نوعیت کے ہوں گے ۔ ایسے میں ، میںنے انقلاب سے کہا کہ تم اتنے خوش نصیب ہو کہ تمہارے مرنے پر تعزیتی ریفرنسز تو ہوں گے ، یار ہم تو ایک تعزیتی جلسے کی بھی مارنہیں ہیں ، یہ سن کر انقلاب کے چہرے پر کچھ رونق آئی اور کہنے لگا کہ پاکستانی سماج سے مجھے لاکھ گِلے سہی لیکن یہ کسی کے مرنے پر تعزیتی جلسے خوب منعقد کرتے ہیں ، یہاں زندوں کی کوئی قدر ہو یا نہ ہو لیکن مردہ پرستی ان پر ختم ہوتی ہے ۔’جانی قاضی ‘ تم نے میرے دل کو تو ہلکا کر دیا اچھااب میں چلتا ہوں ، دیکھ اگر میرے مرنے کی خبر تجھ تک پہنچے تو مجھے دفنانے ضرور آنا اور آگے کسی کو میرے مرنے کی خبر نہیں ہونے دینا کیونکہ پاکستانی سماج کے پاس میں نعرے کی حد تک ہی سہی’’ زندہ باد ‘‘ہوں اور میں یہ نہیں چاہتا کہ ان کے پاس انقلاب زندہ بار کا نعرہ بھی نہ رہے جبکہ انقلاب تو یہاں برپا ہو نہیں سکا اور اب تک بالکل بھی نہیں ہو سکے گا کیونکہ میں مرنے لگا ہوں ، ہاں یار جب کبھی یہاں انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگے تو تم آہستگی سے کہہ دیا کرنا مردہ باد مردہ باد ۔ یہ کہہ کر انقلاب رخصت ہو گیا اور اتنے میں میری آنکھ کھل گئی ۔
پھر میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ پاکستانی سماج میں ایسا کیا ہے کہ ہے کہ یہاں کبھی انقلاب برپا نہ ہو سکا ، حالانکہ انقلاب کی نوید ہر دور میں دی جاتی رہی ہے ، انقلاب کے نعرے اور دعوے آج بھی کیے جارہے ہیں ۔ میرے نزدیک اس کی ایک بڑی وجہ تو پاکستانی سماج میں قومی سطح کا لیڈر کا نہ ہونا ہے اور دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ یہاں ایک قوم تو ہونا دور کی بات اس حوالے سے قریب ترین تصور بھی نہیں پایا جاتا ، یعنی ایک ہجوم ہے اور وہ ایک ایسی سمت کی طرف بھاگ رہا ہے جو ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ایک ایسے کاررواں کے ساتھ چل رہاہے جس کی کوئی منزل نہیں ہے اور منزل ہو بھی کیسے جب کارواں کی رہنمائی کے لئے کوئی امیر کارواں بھی نہیں ہے ۔
الل ٹپ سب کچھ ہو رہاہے، کیوں ہو رہاہے ، کیسے ہو رہاہے، یہ جانے بغیر سب کچھ ہونے دیا جارہاہے ، پھر کہا جاتا ہے کہ یہاںکچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ، سیاست غیرمستحکم کا ہے اور معیشت بد حالی سے دو چار ہے ، کہانی کا عنوان بس یہی ہے کہ ’’تو چل میں آیا‘‘ یعنی اقتدار کی جنگ چل رہی ہے ، معیشت اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے کہ پاکستانی کرنسی روزانہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں گرتی جارہی ہے اور معیشت کا مستقبل یہ ہے کہ بیرونی امداد اور قرضوں کے حصول کو نوید بنا کر پیش کیا جارہاہے ، حکومتوں کی کارکردگی کی بات کی جائے تو سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیکر اس کا رونا رویا جاتا ہے جبکہ فوجی حکومتوں کی وجہ سے ملنے والے غیر معمولی مسائل کا ذکر کرنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا اور نہ ہی اس دور میں ہونے والی کرپشن کا احتساب کرنے کی کوئی بات کرتا ہے ۔ مہنگائی بڑھ رہی بلکہ روز بڑھ رہی ہے ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری نوجوانوں میں مایوسی کو جنم دے رہی ہے، اس کے باوجود عوام کبھی ایک قوم بن کر گھر سے نہیں نکلتی بلکہ ہجوم کی صورت میں ہر روز سڑکوں پر آتی ہے ، رقص کرتی ہے ، نغمے گاتی ہے نعرے لگاتی ہے اور واپس گھروں کو لوٹ جاتی ہے ۔ اگر کسی دن یہ مختلف سیاسی نظریات اور بیانیوں کے حامل ہجوم ایک قوم بن کر ایک مطالبہ کے ساتھ گھروں سے باہر نکل آئیں تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ، لیکن ہجوم کو قوم بننے نہیں دیا جاتا اسے مختلف بیانیوں اور نظریات میں الجھا کر تقسیم در تقسیم کیا جاتا ہے ۔ تو پھر ایسے میں کیوں کر انقلاب آئے گا اور اب تو شاید کبھی نہیں آئے گا کیونکہ انقلاب تو بیمار ہے اورجان کنی کی حالت ہے، وہ مر رہاہے بلکہ اب تک تو مر گیا ہو گا۔
ہاں آخر میں یہ بات بھی کرتا چلوں جومیرے سینئرساتھی نعیم اللہ خان صاحب کہتے ہیںکہ انقلاب سہولتوں سے نہیں بلکہ صعبتوں سے آتاہے ۔ بلاشبہ انقلاب صعبتوں سے آتا ہے، آج سوشل میڈیا کا دور ہے انفارمیشن کا پھیلائو اس قدر رفتار رکھتا ہے کہ اس حوالے سے سوچ کی رفتار بھی کم پڑ جائے ، لیکن کیا بات ہے کہ انقلاب اُس دور میں آیا کرتے تھے جب جدید سہولتیں نہیں ہوا کرتی تھیں ، آخری بار ہی سہی ’’ انقلاب زندہ باد ‘‘ لیکن ساتھ ہی آہستگی سے میںنے کچھ اور بھی کہا ہے،آپ سمجھ گئے ہونگے ۔