بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

تجھ کو خبر نہیں ہے کیا!بزم کہن بدل گئی: تحریرقاضی سمیع اللہ

وزیر اعظم عمران خان کی مخلوط حکومت کی شریک کار دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم (پاکستان)کی جانب سے حکومتی یقین دہانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ’’ راہ و رسم ‘‘بڑھارہی ہیں ۔حزب اختلاف کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہچکولے کھانے لگی ہے وہاں اس کی اتحادی جماعتوں کے لیے نئے آپشنز بھی کھلے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں حزب اختلاف کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد نے حکومتی اتحادیوں میں نئی روح پھونک دی ہے اور وہ ایک بار پھر ملکی سیاست میں اپنے سیاسی وجود کو محسوس کرنے لگے ہیں جو کہ گذشتہ تین برس سے دھندلا سا گیا تھا ۔حکمران جماعت پی ٹی آئی نے وفاق میں اپنی حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ(ق) اور ایم کیو ایم پاکستان) سے کس طرح کے عہدو پیماں کیے ہیں اس حوالے سے پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں ہی جانتی ہیں یا پھر پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین خوب جانتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک حکمران جماعت پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں کے لیے ایسے’’ چاند‘‘کی مانند ہے جس کا ذکر ممتاز شاعر امجد اسلام نے یوں کیا ہے :
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے
عمر گذری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے
بہر کیف حکمران جماعت پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں غیر معمولی سنجیدگی کے ساتھ حزب اختلاف کی جماعتوں سے ہونے والی ملاقاتوں کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کی’’ یقین دہانی سے یقین دہانیوں ‘‘ تک کے سفر میں کہیں بھی’’ اعتماد کی جھلک‘‘ نظر نہیں آتی ۔لہذا اب وہ اپنے اپنے صوبوں کے زمینی حقائق کے تناظر میںاپنی اپنی ترجیحات کا تعین کررہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کی قیادتوں کی جانب سے حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ’’ضمانتیں ‘‘ طلب کی جارہی ہیں ۔اس ضمن میں جو خبریں سامنے آئی ہیں اس کے مطابق حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دینے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے سابق صدر آصف علی زرداری سے ضمانت مانگی ہے جس پر کہا جارہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کو مسلم لیگ (ن) کی حوالے سے ضمانت دینے کی رضامندی ظاہر کردی ہے ۔ دوسری جانب حکومت کی دوسری بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم (پاکستان) نے سابق صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ضمانت مانگی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے مطالبات جائز ہیں اس پر پیپلزپارٹی سے بات کریں گے۔ جبکہ مسلم لیگ (ق) کے سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ کا کہنا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے ضمانت دینے کے تیار ہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کی مخلوط حکومت کے دو اہم ستون مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے حزب اختلاف کی اعلیٰ قیادتوں سے اپنی شرائط پر عملدرآمد کے لیے ’’ضمانتیں ‘‘طلب کرنا اس امر کی غمازی ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کی یقین دہانیوں کو کسی خاطر میں لانے کے تیار نہیں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے کسی ضمانت کا ذکر نہیں کیا جارہا ہے ۔اس ضمن میں ایم کیو ایم (پاکستان)کے رہنما وسیم اختر کا کہنا ہے کہ ساڑھے 3 سال بعد اب حکومت پر بھروسہ نہیں رہا۔دوسری جانب یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ حکمران جماعت کی جانب سے اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کو پنجاب میں وزرات اعلیٰ دینے کی پیشکش کی گئی ہے لیکن اس کے لیے مسلم لیگ (ق) کو پی ٹی آئی میں ضم ہونے کی شرط رکھی گئی ہے ۔یہاں حیران کن امر یہ ہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اب تک’’ یکساں پالیسی‘‘ اپنائے ہوئے ہیںجو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے اتحادیوں کے مطالبات کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا گیا ہوگااور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے جسے شاعر مشرق ڈاکتر محمد اقبال ؒ نے یوں پیش کیا ہے :
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا بزم کہن بدل گئی
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے
بہر کیف حالیہ سیاسی صورتحال وزیر اعظم عمران خان کے لیے کھلا پیغام رکھتی ہیں کہ’’ ہوا کا رخ ‘‘تبدیل ہورہا ہے اور ’’بادبان ‘‘کہاں ہیں کچھ خبر نہیں ۔اب وقت آگیاہے عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے ملکی سیاسی جماعتیں اپنے حتمی لائحہ عمل کا تعین کریں ،بصورت دیگر کسی بھی قسم کی تاخیر آنے والے وقتوں میں پچھتاوے کا باعث بن سکتیں ہیںلیکن سیاست میں پچھتاوے کی کوئی گنجائش نہیں۔