بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بہت کام رفو کا نکلا۔۔۔تحریر: قاضی سمیع اللہ

حالیہ ملکی سیاست میں وزیر اعظم عمران خان کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا بازار خاصا گرم ہوچکا ہے ۔ایسے میں عوام کہاں کھڑے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں اس حوالے سے کسی نے اب تک جاننے کی کوشش بھی نہیں کی ہے ۔جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی ’’کارکردگی ‘‘ کے حوالے سے ساڑھے تین سالہ مدت کی بات ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان برسوں میں مہنگائی اور بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے ۔یعنی ملک میں اس وقت عام آدمی ’’معاشی عدم تحفظ‘‘ کا شکار ہے اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ سماج معاشی اعتبار سے’’ دو طبقاتی‘‘ ہوکر رہ گیا ہے۔یعنی ایک طبقہ امیر سے امیر ترین ہورہاہے تو دوسرا طبقہ غریب سے غریب تر ہوتا جارہا ہے ، اس طرح متوسط طبقہ (مڈل کلاس)اپنے خاتمہ کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جسے معاشی اعتبار سے سماج کا تیسرا طبقہ کہا جاسکتا ہے لیکن ملکی ترقی میں اسی طبقے کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔معاشی اعتبار سے جہاں عام آدمی معاشی عدم تحفظ کا شکار ہورہا ہے وہاں تین طرح کے غیر معمولی سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں جو براہ راست نوجوان طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں گلی کوچوں کے جرائم (سٹریٹ کرائم )، منشیات کا استعمال اور خود کشی جیسے اقدامات سر فہرست ہیں ۔جہاں تک سماجی علوم میں پائے جانے والے نظریات اور سماج کی تشکیل کے حوالے سے دستیاب فلسفے کی بات ہے تو اس میں یہ شکل واضح ہے کہ کسی بھی سماج میں اگر مہنگائی اور بے روزگاری اپنی انتہا کو چھو لیتی ہے تو ایسے میں اس طرح کے مسائل ہی جنم لیتے ہیں جو مذکورہ بالا سطور میں بیان کیے گئے ہیں لیکن ملک میں غربت بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بنیادی سہولتوں پر بھی غیر ضروری ٹیکس کا لگائے جاناہے ۔یعنی پاکستانی سماج دنیا کے دیگر سماج سے ان معنوں میں انفرادیت رکھتا ہے کہ یہاں ’’افلاس پر بھی ٹیکس‘‘ہے ۔پاکستانی سماج میں غریب کی جو حالت ہے اسے الفاظ کے پہرائے میں نہیں ڈھالا جاسکتا لیکن اس حوالے سے ممتاز شاعر مصحفی غلام ہمدانی کا یہ شعر بہت کچھ بیان کرتا ہے ۔
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
بہر کیف بات ہورہی تھی حالیہ ملکی سیاست کی جہاں وزیر اعظم عمران خان کا مستقبل سوالیہ نشان کی زد میں ہے ۔حکومت میں آنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان پاکستانی سماج میں عوام کو حاصل سہولتوں کا موازنہ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص مغربی ممالک میں عوام کو حاصل سہولتوں ساتھ کرتے رہے ہیں ۔ ایسے میں ہر ذی شعور طبقہ یہی تصور کررہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ایک جامع ’’سماجی ایجنڈے ‘‘ کے ساتھ حکومت بنانے جارہے ہیں جس میں تمام سماجی اور سیاسی و معاشی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہوگا ۔اس ضمن میں ان کی جانب کہا جاتا تھا کہ میرے ساتھ 200مالیاتی ماہرین کی ٹیم ہے جن میں سے 199ماہرین کا آج کی تاریخ تک ظہور نہیں ہوا لیکن ایک ماہر جسے معاشی ارسطو بناکر پیش کیا گیا وہ بھی حکومت کے ابتدائی چند مہینوں میں اِدھر کے اُدھر ہوگئے ،کیا ایسا تو نہیں ہوا کہ کہیں جنون میں کچھ مجنون سی باتیں ہوگئیں ۔ایسے میں انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یا د آگیا ۔
جمہوریت نواز بشر دوست امن خواہ
خود کو جو خود دیے تھے وہ القاب کیا ہوئے
ساحر لدھیانوی کی زبان میں پاکستانی عوام کا وزیر اعظم عمران خان سے یہی سوال ہے کہ وہ نعرے کہاں گئے جو لگائے جاتے رہے ہیں ،وہ دعوے کیا ہوئے جو کیے جاتے رہے ہیں ۔اگر وزیر اعظم عمران خان کے پاس عوام کے ان سوالوں کے جواب ہوتے تو آج انھیں حزب اختلاف کی’’ تحریک عدم اعتماد ‘‘جمع کرائے جانے کے بعد پیدا ہونے والی ’’صورتحال ‘‘کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔آج وزیر اعظم عمران خان کے ’’اتحادی ‘‘خود عمران خان سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں جبکہ کل تک یہی اتحادی اپنے مطالبات کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے دیدار کو ترستے تھے ۔اس حوالے سے تحریک آزادی کے رہنما حسرت موہانی کا یہ اشعار ملاحظہ کیجیے ۔
نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ حالیہ سیاست میں عوام کہاں کھڑے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں ۔اس حوالے سے سماج کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جانا ہی کافی معلوم ہوتا ہے جہاں آمدنی کم سے کم ہوتی جارہی ہو اور کساد بازاری میں اضافہ ہورہا ہو ہے، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کی بجائے پہلے سے موجود روزگار کے ذرائع سکڑتے جارہے ہوں ، مقامی پیداوار کے مقابلے میں بیرونی اشیاء کو ترجیح دیے جانے کو ترقی اورمقامی سرمایہ کاروں کو کاروباری تحفظ دیے بغیربیرونی سرمایہ کاری کی امید لگائے جانے کی روش اپنائی جاتی ہو۔ تو پھر ایسے میں اس امر کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ملکی حالیہ سیاست میں عوام کہاں کھڑے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں ۔یقینا ’’تبدیلی ‘‘چاہتے ہونگے تو جناب ۔
پھر یہ سب شورش و ہنگامہ عالم کیا ہے
اسی پردے میں اگر حسن جنوں ساز نہیں