بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ساجھے کی آکاس بیل۔۔۔تحریر:قاضی سمیع اللہ

وزیر اعظم عمران خان اور اس کی حلیف جماعتوں کے درمیان ’’اتحاد‘‘ برقرار رہ پائے گا یا نہیں اس حوالے سے اب تک تبدیلی سرکار اور اس کے اتحادیوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں کسی قسم کی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کے ایک انٹرویو نے تو ملکی سیاست میں تہلکہ مچادیا دیا ہے ۔چوہدری پرویز الہی کے اس انٹرویو کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس میں بہت سے پہلو نمایا ں ہوتے دکھائی دیتے ہیں جو محض اپوزیشن کی ’’عدم اعتماد کی تحریک ‘‘کے گرد ہی گھومتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ اس میں ایک نمایا پہلو یہ بھی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپنی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے ہی محض حکومتی اتحادی جماعتوں سے رابطے نہیں کررہی ہے بلکہ ان غیر معمولی ’’سیاسی رابطوں‘‘ میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے ممکنہ’’ انتخابی لائحہ عمل‘‘ بھی تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے حکومتی اتحادی جماعتوں کے درمیان ہونے والی اب تک کی ملاقاتوں اور رابطوں کے بعد جس قسم کی سیاسی صورتحال بنی ہے اس کے تناظر میں تمام تر امکانی یقینات کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں کے دماغ میں اس وقت بہت کچھ چل رہا ہے جس میں ’’نئے انتخابی اتحاد‘‘سے لیکر اگلے انتخابات کے دوران ممکنہ’’ سیٹ ایڈ جسمنٹ ‘‘جیسے معاملات شامل ہیں ۔ ایسے میں اس تاثر کو بھی سنجیدگی اور پختگی حاصل ہورہی ہے کہ حالیہ ملکی سیاست میں اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعتیں مل کر کوئی ’’نیا ضابطہ اخلاق‘‘بھی تشکیل دینے جارہے ہیں جسے ’’نئے سیاسی معاہدے ‘‘کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔حالانکہ ملکی سنجیدہ سیاسی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں بھی ہونے لگی ہیں کہ اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اپنا ہوم ورک بہت پہلے ہی مکمل کرچکی ہے اور کامیابی کی صورت میں وزرات عظمیٰ ، اسپیکر ، وزرات خزانہ ، داخلہ اور خارجہ سمیت صوبائی سطح پر ہونے والی ممکنہ تبدیلی کے حوالے سے تقسیم ِ باہمی کرچکے ہیں ۔دوسری جانب حکمران جماعت پی ٹی آئی کی قیادت ہے جو حالیہ ملکی سیاست کو محض اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں دیکھ رہی ہے حالانکہ سیاسی معاملات کچھ سے کچھ ہوتے جارہے ہیں ۔ایسے میں تبدیلی سرکار کو اپنے سیاسی معاملات ’’ایڈہاک ازم ‘‘ پر چلانے کی بجائے وسیع بنیادوں پر چلانے کی ضرورت ہے ،محض تحریک عدم اعتماد کوئی دکھ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایسے سیاسی دائو پیچ کار فرما ہیں جو مستقبل کی سیاست کا منظر نامہ پیش کررہے ہیں ۔لہذا وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کی سیاست کے در پردہ عوامل کو بھی دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے ۔جیسا کہ معروف شاعر محسن بھوپالی کا یہ شعر ہے ۔
ہماری جان پہ دہرا عذاب ہے محسن
کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
بہر کیف یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الہی کے مذکورہ انٹرویو میں حکومتی مخالف جذبات کے حامل اشاروں کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔اس ضمن میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کوپر ’’سیاسی دبائو ‘‘ڈالنے کے لیے چوپدری پرویز الہی کے صاحبزادے وفاقی وزیر چوہدی مونس الہی کی گرفتاری کی کوشش کی گئی ہے لیکن جو کسی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکی ۔تاہم اس حوالے سے نیب کی جانب سے بھی ایک وضاحتی بیان سامنے آیا ہے کہ امونس الہی کے حوالے سے اس وقت نیب میں کوئی انکوائری زیر التوا نہیں لہذا ان کی گرفتار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاجبکہ کہ اس ضمن میں نیب کے حوالے سے تمام قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الہی کی جانب سے اپنے حالیہ انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا گیاہے کہ ہماری طرف سے وفاداری کی گئی لیکن ان کی طرف سے دھمکیاں آ رہی ہیں جبکہ نیب کو کہا گیا کہ مونس کو پکڑو۔
جہاں تک مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما چوہدری پرویز الہی کے مذکورہ انٹرویو میں حکومتی مخالف جذبات کے حامل اشاروں کی بات ہے تو اس میں ایک پہلو تو بظاہر حکومت کی جانب سے سیاسی دبائو بڑھانے یہ کوشش لگتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا دیگر حکومتی اتحادی جماعتوں کو بھی اس طرح کے دبائو کا سامنا ہے یا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں ایم کیو ایم (پاکستان)کو’’ ہاٹ کیک‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اندر جو بغاوت چل رہی ہے اسے دبانے کے لیے بھی ا سی طرح کے حربے استعمال ہوسکتے ہیں ۔ایسے میں حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اتحادیوں کے حتمی فیصلے سے پہلے اس قدر فاصلے نہ بڑھ جائیں کہ ہر چیز سمٹی ہوئی نظر آئے۔ جیسا کہ ڈاکڑ بشیر بدر کی غزل کے دو مختلف اشعار کے یہ دو مصرعے ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کو درپیش سیاسی بحران کی عکاسی کرتے ہیں ۔
’’مجھے ایک مٹھی زمین دے یہ زمین کتنی سمٹ گئی ‘‘
’’یہ عجیب آگ کی بیل تھی مرے تن بدن سے لپٹ گئی ‘‘
بہر کیف حکومت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے موجودہ رویے اور رحجان تو یہی پیغام دے رہے ہیں ۔
ہو گئے آنگن جدا اور راستے بھی بٹ گئے
کیا ہوا یہ لوگ کیوں اک دوسرے سے کٹ گئے