بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

عمران خان کی’’دیدہ دلیری‘‘ کو سلام!

کسی بھی سماج میں اس طرح کی سیاست کو کیا کہا جاتا ہے جہاں پہلے کوئی ہیجان پیدا کیا جائے اور اس کے بعد صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے،اس حوالے سے سیاسی لغت خاموش ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں سیاسی لغت اس حوالے سے خود کو بھرپور پائے گی ۔سابق وزیراعظم عمران خان کی سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کا ماخذ یہی ہے جو بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے ۔سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حال ہی میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ نئے انتخابات اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی تشکیل تک موجودہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر دی جائے ۔عمران خان شاید یہ بات بھول گئے ہیں یا دانستہ طور پرنظرانداز کررہے ہیں کہ وہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ ایک بیانیہ تشکیل دیتے آئے ہیں جس میں چوکیدار ، جانور ، غدار ، میر جعفر ، میر صادق اور نیوٹرل جیسی اصطلاحیںاستعمال کی گئی اور ساتھ ہی ان کا یہ فرمانا کہ وہ حق پر ہیں لہذا ان کا ساتھ دیا جائے کیوں کہ ان کے مخالفین تو باطل پرست ہیں ۔اس طرح کا بیانیہ یا لفظوں کی جگالی صرف عمران خان ہی کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ عمران خان ہیں۔
اسی طرح سابق وزیراعظم نے امریکہ کے خلاف ایک بیانیہ تشکیل دیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار بھی امریکی سازش کو ہی قرار دیا ،ایک جانب وہ امریکہ مخالف بیانیہ تشکیل دے رہے تھے اور اس بنیاد پر موجودہ حکومت کو بھی امپورٹڈ حکومت قرار دے رہے تھے تو دوسری جانب وہ امریکہ میں اپنی امیج کو بہتر بنانے کے لیے دو امریکی لابیز کی خدمات بھی حاصل کررہے تھے ۔اسی طرح ان کی جانب سے امریکی حکام سے ملاقاتیں ہوتی رہی اور ابھی حال ہی میں سی آئی اے کی ایک اینا لسٹ رابن رافیل سے ان کی ملاقات ہوئی ہے اور یہ ملاقات پی ٹی آئی یو ایس چیپٹر کے ایک عہدیدارکے ذریعے ہوئی ہے۔پہلے امریکہ مخالف بیانیہ اور اس کے بعد امریکہ کے سامنے اپنا امیج بہتر بنانا،ایسا یوٹرن لینا عمران خان کا ہی وطیرہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ عمران خان ہیں۔جو یہ جانتے ہیں کہ وہ جو بولتے ہیں لوگ بھول جاتے ہیں اور وہ جب کہتے ہیں لوگ اس کے پیچھے چل پڑے ہیں ،ان کے فالورز ان کے کہنے پر دن کو رات اور رات کو دن کہنے پر کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔
سابق وزیراعظم عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف ان کی کہی ہوئی ہر بات کو بھول گئے ہوں گے اسی طرح امریکہ کے حوالے سے بھی وہ یہی تاثر رکھتے ہیںکہ وہ بھی ان کی ہر بات بھول گئے ہوں گے جبکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کہی ہوئی باتیں بھولی نہیں جاتی بلکہ وقت آنے پر یاد دلائی جاتی ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان کے بیانیوں میں ہمیشہ سے ہی تضاد رہاہے جیسا کہ چیف الیکشن کمیشن کی تقرری کے وقت انہوں نے ان کی تعریف کے پل باندھ دیئے تھے اور ایسے قلابے ملائے تھے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی اور اب اسی چیف الیکشن کمشنر کو عمران خان ’’گھٹیا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔اسی طرح عمران خان حکومت سے یہ کہہ کر بات کرنے کو تیار نہیں تھے کہ وہ چور ڈاکوئوں سے کوئی بات نہیں کریں گے یا پھر انکا کہنا تھا کہ پہلے انتخابات کی تاریخ دی جائے اس کے بعد بات ہو گی لیکن اب انہوں نے یوٹرن لیتے ہوئے اس بات پر آمادگی دکھائی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں۔جہاں تک عمران خان کے کرپشن کے خلاف بیانیہ ہے تو وہ بھی ان کی عملی سیاست کے ہاتھوں خود ہی ذلیل و خوار ہو رہا ہے ،عمران خان کا یہ دعویٰ کے موجودہ حکومتی ٹولے نے گیارہ ارب روپے کی کرپشن کے کیسز معاف کرائے ہیں جبکہ دوسری جانب پنجاب میں ان کی حکومت کی طرف سے شیری مزاری ، شیخ رشید اور فرح گوگی کے کرپشن کے کیس ختم کر دیئے گئے ہیں کیونکہ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہ کیس غلط بنائے گئے تھے ۔حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے انکا باقاعدہ ٹرائل ہونا چاہیے تھا۔
بلا شبہ عمران خان کی سیاست یوٹرن کا استعارہ بن گئی ہے اورمبالغہ آرائی ان کا خاصہ بن گئی ہے انہیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ جو بولتے ہیں وہ بکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ اگر انتخابات سے پہلے موجودہ آرمی چیف کو توسیع دے دی جائے تو یقیناً انتخابات وہ ہی جیتیں گے اور ایسے میں نیا آرمی چیف بھی وہ ہی لگائیں گے، اس طرح یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ عمران خان کی سیاست آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کے گرد گھوم رہی ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں ان کی مرضی کا آرمی چیف ہو گا تو سارا کام چلے گا لیکن ایسے میں وہ یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ ووٹ دینے والے عوام ایک مزاج رکھتے ہیں اور وہ اپنے مزاج کے مطابق ووٹ دیتے ہیں جبکہ انتخابات فین فالوورز کی بنیاد پر نہیں جیتے جاتےلیکن عمران خان تو عمران خان ہیں وہ جو بات کرتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کہا حرف آخر ہے۔تو ایسی سوچ کو عمران خان کی ’’دیدہ دلیری‘‘ کہا جائے گا، تو پھر ایسی دیدہ دلیری کو سلام پیش نہ کیا جائے تو پھرکیا کیا جائے۔