بیجنگ (مانیٹرنگ ڈیسک )چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں، چین امریکہ تعلقات سابق امریکی انتظامیہ کی پیدا کردہ مشکلات سے بدستور نہیں نکل سکے، امریکہ میں کچھ لوگ “تائیوان کی علیحدگی پسند” قوت کو غلط اشارے بھیج رہے ہیں، سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنا ہو گا، گروہوں کے تصادم میں شامل نہ ہونا اور بتدریج ایک متوازن، موثر اور پائیدار عالمی اور علاقائی سلامتی کا خاکہ قائم کرنا ، طویل المدتی حل ہے، امر یکی صدر جو با ئیڈن نے کہا کہ چین کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں ہے، امریکہ “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہیں کرتا، امریکہ اور چین کے تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے صدر شی جن پھنگ کے ساتھ قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر آمادہ ہوں.تفصیلات کے مطا بق چینی صدر شی جن پھنگ نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ورچوئل بات چیت کی۔دونوں سربراہان مملکت نے چین۔امریکہ تعلقات اور یوکرین کی صورت حال جیسے مشترکہ تشویش کے مسائل پر کھلا اور گہرا تبادلہ خیال کیا۔ شی جن پھنگ نے اس جانب اشارہ کیا کہ چین امریکہ تعلقات سابق امریکی انتظامیہ کی پیدا کردہ مشکلات سے بدستور نہیں نکل سکے ہیں ، بلکہ اس کے بجائے مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں کچھ لوگ “تائیوان کی علیحدگی پسند” قوت کو غلط اشارے بھیج رہے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ اگر تائیوان کے معاملے کو صحیح طور پر نہ نمٹا گیا تو اس سے دونوں ممالک کے تعلقات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ امید ہے کہ امریکی فریق اس معاملے پر کافی توجہ دے گا۔صدر شی نے مزید کہا کہ چین امریکہ تعلقات کی موجودہ صورتحال کی سب سے بڑی اور براہ راست وجہ یہی ہے کہ امریکہ میں کچھ لوگوں نے دونوں صدور کے درمیان طے شدہ اہم اتفاق رائے پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی امریکی صدر کے مثبت بیانیے پر عمل درآمد کیا ہے۔ امریکہ نے چین کے اسٹریٹجک ارادوں کا غلط ادراک کیا ہے۔ شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین اور امریکہ کے درمیان ماضی میں بھی اور آج بھی اختلافات موجود ہیں اور مستقبل میں بھی اختلافات رہیں گے۔ کلید یہی ہے کہ اختلافات سے بہتر طور پر نمٹا جائے ۔ مستحکم چین امریکہ تعلقات دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند ہیں۔شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ گزشتہ نومبر میں ہماری پہلی “کلاؤڈ میٹنگ” کے بعد سے بین الاقوامی صورتحال میں نئی اور بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ امن اور ترقی کے دور کے تھیم کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے اور دنیا پرامن نہیں ہے۔ یوکرین کا بحران ایک ایسا بحران ہے جسے ہم نہیں دیکھنا چاہتے۔ متعلقہ واقعات ایک بار پھر ظاہر کرتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کو تصادم کے مرحلے تک نہیں پہنچنے چاہییں، تصادم کسی کے مفاد میں نہیں اور امن و سلامتی عالمی برادری کا سب سے قیمتی خزانہ ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے طور پر، ہمیں نہ صرف چین اور امریکہ کے تعلقات کو درست سمت پر گامزن کرنا چاہیے، بلکہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو بھی نبھانا چاہیے اور عالمی امن و سکون کے لیے کوششیں کرنی چاہیے۔
امریکہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں، چین
