بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

وزیر قانون سینیٹر اعظم تارڑ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا تھا؟

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے بحیثیت وزیر قانون کام شروع کردیا ہے لیکن یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ اُن کے استعفے کے پیچھے کیا وجہ تھی جس کی وجہ سے انہوں نے ’’ذاتی وجوہات‘‘ کہتے ہوئے ایک ماہ قبل استعفیٰ دیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی وہُ خاموشی بھی پریشان کُن ہے جو انہوں نے اس وقت اختیار کی تھی۔ ان کی یہ خاموشی منگل کو اس وقت ٹوٹی جب راولپنڈی میں کمان کی تبدیلی ہوئی۔ وزیراعظم نے اپنے وزراء کا ایک وفد تارڑ کے پاس بھیجا کہ ان کو منایا جاسکے اور استعفیٰ واپس لینے پر آمادہ کیا جا سکے۔

موقف معلوم کرنے کیلئے تارڑ دستیاب نہیں تھے لیکن اس معاملے پر مختلف وضاحتیں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان کے استعفے سے قبل دو اہم واقعات پیش آئے: جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس جس میں ہائی کورٹ کے چار ججوں کو سپریم کورٹ میں لگانے کی منظوری دی گئی اور دوسرا واقعہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس جس میں فوج مخالف نعرے لگائے گئے۔

سرکاری نمائندوں (وزیر قانون تارڑ اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف) نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے مجوزہ تین ناموں کی توثیق نہیں کی تھی، ساتھ ہی سپریم کورٹ کے کچھ دیگر جج بھی تھے جنہوں نے چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججوں کے ناموں کے حوالے سے اپنی مخالفانہ رائے کو سب کے سامنے پیش کر دیا۔

اس کے بعد 24؍ اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں تارڑ اور اوصاف نے چیف جسٹس کے مجوزہ ناموں کو قبول کر لیا۔ اس سے یہ تنازع پیدا ہوا کہ آخر حکومت نے اپنی سوچ کیوں بدل دی۔ جیسے ہی سپریم کورٹ بار کے الیکشن نزدیک آئے، تارڑ کے استعفے کو ایسے دیکھا جانے لگا جیسے یہ بار ایسوسی ایشن کی سیاست کی وجہ سے دیا گیا ہو۔ تاہم، ایک باخبر ذریعے نے اس تاثر کو مسترد کر دیا۔

ذریعے کے مطابق، تارڑ حکومتی فیصلے کے مخالف نہیں تھے۔ اس کی بجائے، ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران کے تعلق جس میں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ اور دیگر مخالف فیصلے نون لیگ کیخلاف آچکے ہیں؛ ان سب کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ کی قیادت کیساتھ تنازع سے بچنے کی کوشش کرے۔ تارڑ اور اوصاف اس موقف پر متفق تھے اور شاید انہوں نے حکومت کو بھی یہی فیصلہ کرنے پر آمادہ کیا۔

اسی دوران وزیراعظم نے ایاز صادق کو وزارت قانون کا اضافی قلمدان دیدیا۔ تاہم، تارڑ کے استعفے کو قبول نہیں کیا گیا۔ جیسے ہی راولپنڈی میں کمان تبدیل ہوئی، وفد کو بھیج کر تارڑ سے کہا گیا کہ وہ استعفیٰ واپس لیں۔ بدھ سے اب وہ دوبارہ وزیر قانون بن چکے ہیں۔