بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

تم صرف 15 سال کی عمر تک زندہ رہو گے۔۔۔ایسا شخص جسے ہڈی ٹوٹنے پر بھی درد محسوس نہیں ہوتا، جانیں درد کتنا ضروری ہے؟

آگ پر ہاتھ رکھنے، ہڈی کے ٹوٹنے يا سوئى کے چبھنے سے درد یا تکلیف محسوس نہیں ہوتی…یہ تصور نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے!
کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہے، جو درد محسوس نہیں کرسکتا؟ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا لیکن ہم آپ کو آج ایک ایسے شخص سے ملواتے ہیں جسے نہ ہى کوئی درد محسوس ہوتا ہے اور نہ تکلیف کى حس اس میں موجود ہے-
دنيا میں ايسے بہت سے عجائبات انسانوں کے ساتھ درپيش رہتے ہیں، جنہیں تصور نہیں کيا جاسکتا- بلکہ کچھ تجربات سے قدرت انسانوں کو غير پسنديدہ شے کى بھى اہميت کا ادراک کرواتى ہے –
اسى طرح واشنگٹن، امریکہ سے تعلق رکھنے والے سٹيون پیٹ کے ساتھ بھى ہوا جنہیں حيران کن طور پر شديد ترين چوٹ میں بھی کبھی کوئی تکلیف يا درد کا احساس نہیں ہوا- ان سے جب پوچھا گیا کہ انہیں یہ تکلیف کیوں نہیں محسوس ہوتی؟ ان کا کہنا تھا کہ ان کى پيدائش ایک نایاب حالت میں ہوئى- وہ پيدائشى حساسيت کے مرض جسے طبى اصطلاح میں CIP کہا جاتا ہے، میں مبتلا ہیں- ایسی نایاب حالت جس میں صرف 1/125 ملين بچے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں-
 پیدائش کے کچھ عرصے بعد جب انہوں نے دانت نکالنا شروع کیے تو اس کے والدین نے کچھ عجیب محسوس کیا- انہوں نے دیکھا کہ جب وہ دانت نکالنے کے دور سے گزر رہے تھے تو وہ دوسرے بچوں کے برعکس اپنی زبان کاٹتے نہيں رکتے يہاں تک کہ خون رسنے لگتا- یہ دیکھ کر اس کے والدین بہت پریشان ہوئے اور اسے ہسپتال لے گئے- وہاں اس کے کچھ ٹیسٹ لیے گئے- انہوں نے اسے کچھ سوئياں چھبوئيں- یہاں تک کہ اس کے چھوٹے سے پیر کے قریب لائٹر بھی چلایا مگر ہر بار درد ہونے کے بجائے اس کے جلد خون رستا اور چھالے بن جاتے- حیرت انگیز طور پر وہ اس وقت بھی نہ صرف مسکرا رہا تھا بلکہ پر سکون تھا- پھر ڈاکٹرز نے یہ انکشاف کيا کہ وہ درد محسوس نہیں کرسکتا-
سٹیون کا کہنا ہے کہ اس وقت کوئی بھی اس کی حالت محسوس نہیں کر سکتا تھا- ڈاکٹروں کے مطابق وہ 7، 11 یا زيادہ سے زيادہ 15 سال کی عمر تک زندہ رہ سکتے تھے-
یہی وجہ تھی کہ سٹیون جیسے جیسے بڑا ہوتا جا رہا تھا، بلا خوف و خطر زندگى بسر کرتا- وہ لاپرواہ تھا- وہ بلند قامد عمارتوں سے لمبی چھلانگیں لگا لیتا، ہمت کو انتہائی حد تک دھکيلتا، خطرناک اسٹنٹ کرنے میں بھی کوئى دقت نہ ہوتى- وہ جانتا تھا کہ کچھ بھی اسے دُکھا نہیں سکتا-
زندگى معجزات کا نام ہے، موڑ اس وقت آيا جب ڈاکٹروں کی پیش گوئی کے برعکس وہ خطرناک عمر بھى پار کر گيا اور ديگر بچوں کى طرح جوانى کى دہليز پہ آگيا- 25ويں سالگرہ مناتے ہوئے ہر طرف خوشیاں اور رنگ ہی تھے، تو اس نے ایسے ہی کچن میں لکڑی کے شہتیر پہ اپنا پاؤں زور سے مارا کچھ گھنٹوں بعد اس کا پاؤں سوج تو گیا تھا مگر وہ بدستور اپنى خوشيوں میں مگن تھا-
اسٹیون زندگی کی 40 بہاریں دیکھ چکا ہے اور ان چالیس برسوں میں وہ اپنے جسم کی تقریباً اسی ہڈیاں بھی توڑ چکا ہے – وقت کے ساتھ اسے محسوس ہوا کہ اس کا بچ جانا ہى ایک معجزہ ہے –
درحقیقت درد یا تکلیف، جسم کا الارم سسٹم ہے- جيسے ہڈی ٹوٹتی ہے، تو جسم میں درد و ٹيس محسوس کرتا، کراہتا ہے اور سب کام چھوڑ کر اس کی دیکھ بھال کرنے لگتے ہیں- لیکن اسٹيون کا جسم بغیر الارم کے گھر جیسا ہے، اسے کسی درد کی حس بھی محسوس نہیں ہوتی-
یہی وجہ ہے کہ دنيا میں اس بیماری میں مبتلا بچے زندہ نہیں رہ پاتے- درد نہ ہونے پر ان کو محسوس نہیں ہوتا کہ انہیں کہاں رکنا ہے اور کب دیکھ بھال کرنی ہے-
گویا درد بھی ایک نعمت ہے- اگرچہ یہ درد کا احساس ہی ہے جو ہمیں غیر آرام دہ کرتا ہے، وقتی پریشان کن لیکن دراصل ہميں زندہ رکھنے کا اہم جُز ہے- سو ان تکالیف اور درد سے شکوہ کرنے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کريں کہ ہم اسے محسوس کر سکتے ہیں- یقیناً آج اس کا بھيد کھلا کہ تکلیف میں بھی راحت پوشیدہ ہوتى ہے-