بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

تفصیلی اختلافی فیصلہ ،سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم کیا رخ اختیار کرے گی؟

اسلام آباد(طارق محمود سمیر)سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے دوصوبوں میں انتخابات کی تاریخ دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں تفصیلی فیصلے میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شاید دوسری مرتبہ ایسا منظرنامہ نظر آرہا ہے کہ بعض ججز اپنے چیف جسٹس کے خلاف ڈرائنگ روم میں باتیں کرنے کی بجائے اپنے فیصلوں میں اختلاف کر کے ایسے ریمارکس لکھ رہے ہیں جو پہلے کبھی کسی جج نے اپنے چیف جسٹس اور ساتھی ججز کے بارے میں نہیں لکھے ، جسٹس منصور علی شاہ کا یہ فقرہ کہ ازخود نوٹس سیکشن184(3)کے تحت چیف جسٹس کو ون مین پاور شو کے اختیارات حاصل ہیں اور ان اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور چیف جسٹس کو حاصل بے لگام اختیارات سے وہ لطف اندوز ہوتے ہیں ،پہلے تو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم شہبازشریف کے درمیان لیٹر بازی کا جو سلسلہ جاری تھا اس کے بارے میں یہ کہا جارہا تھا کہ ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم آمنے سامنے آگئے ہیں اور دونوں آئین کی اپنی سوچ اور اپنے فائدے کے مطابق تشریح کر رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز کی طرف سے تفصیلی فیصلے میں جو باتیں کی گئی ہیں ایسی باتیں سپریم کورٹ کے اندر سے ماضی میں کم ہی سننے میں آئیں ،دو ججز نے اپنے تفصیلی فیصلے میں یہاں تک لکھ دیا ہے کہ یہ فیصلہ چار تین کا تھا اور جس طرح پانامہ کیس میں پہلے تین ججز نے معاملہ جے آئی ٹی میں بھیجنے کے حق میں رائے دی اور بعد ازاں جب جے آئی ٹی کی رپورٹ آئی تو اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے دونوں ججز دوبارہ بینچ میں آکر بیٹھ گئے اور بعد ازاں متفقہ کر کے سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کو جواز بنا کر نااہل قراردے دیا ، پاکستان میں کبھی اسٹیبلشمنٹ متنازع بن جاتی ہے تو کبھی عدلیہ ،اداروں کو متنازعہ بنانا قطعاً ملکی مفاد میں نہیں ہوتا لیکن جب کوئی شخصیت ادارے کا سربراہ بن جاتی ہے تو وہ آئین اور قانون سے ہٹ کر فیصلے کرتے ہیں تو پھر تنقید کی زد میں آجاتے ہیں کیونکہ ماضی میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ان دنوں مسلم لیگ (ن) اور میڈیا کی تنقید کا سامنا کر رہے ہیں اور روزانہ نئے نئے انکشافات بھی ہورہے ہیں ،صحافی شاہد میتلا نے جنرل قمر باجوہ سے متعلق جو انکشافات کئے ہیں وہ کافی حد تک درست ہیں اور قمر جاوید باجوہ نے اپنی بعض غلطیوں کا بھی اعتراف کیا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو فیصلے کئے ان کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے اور دونوں آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے قومی خزانے سے ماہانہ 10 لاکھ روپےپنشن لے رہے ہیں اور سابق ججز کی دس لاکھ ماہانہ پنشن کا انکشاف گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے سینیٹ اجلاس میں تقریر کے دوران کیا تھا جبکہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق جو فیصلہ دیا وہ بھی قوم کو 6بلین ڈالر نقصان بھگتنا پڑا اور عالمی عدالت انصاف میں پاکستان یہ کیس ہارا ، کیا کسی تحقیقاتی ادارے نے افتخار چودھری سے آج یہ پوچھا ہے کہ انہوں نے کس بنیاد پر ملکی مفاد کے خلاف یہ فیصلہ دیا ، اس وقت سپریم کورٹ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کا ایک ہی حل ہے کہ مزید کشیدگی اور صورتحال خراب ہونے سے بچنے کےلئے چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیں ، فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ پاکستان بار کونسل کر چکی ہے ، فل کورٹ تشکیل نہ دینے کا کوئی جواز نظر نہیں آرہا ، فل کورٹ کی تشکیل سے ہمیشہ کےلئے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور وہاں سے وہ بھی فیصلہ آئے گا کسی کو بھی تنقید کا موقع نہیں ملا جبکہ سپریم کورٹ کے تین ججز سے متعلق چودھری پرویز الٰہی کے سابق پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کے انکشافات پر چیف جسٹس کی ناراضگی اپنی جگہ کیا انہوں نے اب تک ایف آئی اے یا کسی اور ادارے سے کہا ہے کہ اس ویڈیو کے اصلی ہونے کی تحقیقی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ،آئندہ دو ہفتے سپریم کورٹ سے آنے والے فیصلوں کی روشنی میں ملکی سیاست کےلئے اہمیت کے حامل ہیں ۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کر کے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے اپنے خطاب میں موثر انداز میں تحریک انصاف کا موقف پیش کیا اور انہوں نے اپنے خطاب میں عمران خان کو پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر قراردیا اور یہاں تک کہا کہ بینظیر بھٹو جب 2007میں شہید ہوئیں لیکن اس کے باوجود انتخابات ملتوی نہیں کئے گئے اب انتخابات ملتوی کر کے توہین عدالت کی جارہی ہے ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کی شرکت عین جمہوری اصولوں کے مطابق ہے اور انہوں نے اپنے فیصلے میں نظر ثانی کر کے صحیح راستہ اپنایا ہے ،آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی راجن پور سے تحریک انصاف کے نومنتخب رکن قومی اسمبلی محسن لغاری نے بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی اور حلف سے قبل سپیکر راجہ پرویز اشرف سے بھی ملاقات کی ۔ اگر تحریک انصاف اسمبلیوں سے استعفے نہ دیتی تو آج ایوان میں بھرپور نمائندگی ہوتی اور راجہ ریاض جیسا سیاسی رہنما اپوزیشن لیڈر نہ ہوتا بلکہ عمران خان خود یا ان کے نامزد کردہ شاہ محمود قریشی اپوزیشن لیڈر ہوتے تو حکومت کو ایوان میں من مانی کرنے کا موقع نہ ملتا۔