بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

مقتدرحلقے سراج الحق کی پشت پر،مفاہمتی کوششوں کی کامیابی کیلئے ’’مولانا‘‘کوراضی کرناضروری 

اسلام آباد(راشدعباسی)ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کا بیڑابالآخر امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے اٹھایاہے،حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی میزپر لانے کے لئے ان کی ابتدائی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ،سراج الحق کی وزیراعظم شہبازشریف اورچیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے الگ الگ ملاقاتوں میں دونوں جانب سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی گئی ہےلیکن عمران خان نے خودمذاکرات کا حصہ بننے کی بجائے کمیٹی بنانے کااعلان کیا، پھر انہوں نے پرویز خٹک، سینیٹر اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید پرمشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل بھی دے دی گئی ہے، کمیٹی میں شامل مذکورہ تین رہنماؤں کے جماعت اسلامی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،خاص طور پر میاں محمودالرشیدایک عرصے تک جماعت اسلامی کا حصہ بھی رہے ہیں لیکن اس کمیٹی میں اسدعمر،اسدقیصر اور شاہ محمودقریشی جیسے اہم رہنماؤں میں سے کسی ایک کوبھی شامل نہ کیا جانابھی مذاکرات میں پی ٹی آئی کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے،جبکہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمان پی ٹی آئی کے بات چیت کے مخالف ہیں اور ان کی یہ مخالفت برقراررہتی ہے تواس سے بھی مذاکراتی عمل متاثر ہوسکتا ہے ،ایک اعتراض یہ بھی اٹھایاجارہاہے کہ کل تک حکمران اتحاداور پی ٹی آئی پرکڑی تنقید کرنے اور انہیں ملکی ابترحالات کا ذمہ دارقراردینے والے سراج الحق کواچانک مفاہمتی سیاست کاخیال کیسے آگیا ؟ ممکنہ طور پر سراج الحق کو مقتدرحلقوں کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہو کیونکہ مقتدرحلقوں میں حکومت اور پی ٹی آئی میں محاذآرائی کی باعث سیاسی عدم استحکام پر تشویش ہے کیونکہ یہ محاذ آرائی نہ صرف دیگرملکی مسائل کو سنگین بنارہی ہے بلکہ سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان موجودہ تناؤ کی بنیاد ی وجہ بھی یہی ہے،اس تشویش کااظہارآرمی چیف سیدعاصم منیر نے قومی سلامی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں دیئے گئے اس بیان میں کیاہے جس میں ان کا کہناتھا کہ ہمیں نئے اور پرانے پاکستان کی بحث کو چھوڑ کر اب ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے،یہ امربھی قابل ذکرہے کہ جماعت اسلامی کے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں سے اچھے تعلقات رہے ہیں، ماضی میں وہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت کا حصہ بھی رہ چکی ہے اس لئے دونوں جانب سے جماعت اسلامی پراعتماد بھی کیاجارہاہے، عیدالفطرکے بعدجماعت اسلامی کی قیادت میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کابھی امکان ہے اور عمران خان اور شہباز شریف کو اے پی سی میں بلانے کے لیے رابطے شروع کر دیے گئے ہیں اگر عمران خان اور شہبازشریف دونوں اس اے پی سی میں شرکت کرتے ہیں تو یہ ممکنہ پیشرفت ملکی سیاسی استحکام کے لئے ایک نیاآغاز ثابت ہوسکتی ہے، سیاسی مفاہمت کے لئے سراج الحق کی کوششیں لائق تحسین ہیں ،اب حکومت اور خاص طو ر پر پی ٹی آئی کی قیادت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے وسیع ترمفاد میں ان کوششوں کونتیجہ خیزبنانے کےلئے سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے،سیاسی قیادت کو یہ ادراک کرناچاہئے کہ سیاسی تنازعات اور اختلافات کا حل مذاکرات یامکالمے میں مضمرہے اور ہٹ دھرمی،ضداور اناکی سیاست سے بالآخرنقصان ملک وقوم کو ہی ہوتا ہے۔