بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں،چودھری برادران کے گھر چھاپے کا ماسٹر مائنڈ کون؟

اسلام آباد(طارق محمود سمیر)تحریک انصاف کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی انٹی کرپشن پنجاب کے ایک مقدمے میں گرفتاری کے لئے پنجاب پولیس نے جو طریقہ کار اختیار کیا اس کی ماضی میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں اور لاہور گلبرگ روڈ پر ظہور الٰہی خاندان کے گھر پرجو 8گھنٹے کارروائی کی گئی اس میں بکتر بند گاڑی سے لیکر پولیس کمانڈوز کو استعمال کیا گیا ۔ گھر کے مرکزی دروازے کو بکتر بند گاڑی سے توڑا گیا اور چوہدری شجاعت حسین کا گھر بھی پولیس گردی سے محفوظ نہیں رہا ۔اس گرفتاری کا جس نے بھی حکم دیا اس نے تو ریٹائرڈ ہو جانا ہے اور بدنامی مسلم لیگ (ن) کے کھاتے میں آئے گی ، یہ اسی طرح ہے کہ اب عمران خان ، فواد چوہدری ، شیریں مزاری یہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس ان کی مرضی کے برعکس دائر کیا گیا تھا اور یہ ریفرنس دائر کرانے میں ثاقب اسٹیبلشمنٹ ملوث تھی تاہم جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر تحریک انصاف کی حکومت کو میڈیا ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عدالتوں میں نہ صرف شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ یہ واقعہ ان کے لئے بدنامی کا ایک داغ بن چکا ہے ۔ اسی طرح کل (ن) لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی (ن) لیگ کے سینئر رہنما یہ کہیں گے کہ پنجاب میں نگران حکومت تھی اور چوہدری پرویز الٰہی کی گرفتاری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی جو چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے قریبی رشتہ دار ہیں بلکہ ان کو اس مقام تک پہنچانے میں چوہدری فیملی کا بڑا ہاتھ ہے ، وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین اور محسن نقوی کی بیگمات دونوں آپس میں بہنیں ہیں جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کی ہمشیرہ محسن نقوی کی ساس ہیں ۔ ان تمام قریبی رشتوں کے باوجود محسن نقوی کے کھاتے میں بھی ایک بدنامی کا واقعہ آگیا ہے ، پولیس کی طرف سے گرفتاری کا طریقہ کار اور ایک سیاسی شخصیت کے گھر دعویٰ بولنا کسی طرح بھی قانونی طور پر جائز نہیں ہے ۔ وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے اس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ پولیس کو کہہ رہے ہیں کہ چوہدری شجاعت حسین سورہے ہیں اور وہ بیمار ہیں آپ جو کچھ کر رہے ہیں یہ آپ کے لئے بدنامی کا باعث بنے گا تاہم اقتدار کے نشے میں غیر قانونی احکامات پر عملدرآمد کرنے والے خاتون ایس پی نے وفاقی وزیر کی بالکل نہ سنی اور چوہدری شجاعت حسین کے گھر کے دروازے کے شیشے بھی توڑے گئے اور ایک شیشے کا ٹکڑا لگنے سے وفاقی وزیر سالک حسین زخمی بھی ہوئے ۔چوہدری شجاعت حسین کے دوسرے بیٹے چوہدری شافع حسین نے بھی پولیس کی کارروائی مذمت کی ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ پولیس نے جو طریقہ اپنایا ایسے لگتا تھا کہ کسی اشتہاری کی گرفتاری کے لئے ایسا کیا جارہاہے ۔ چوہدری پرویز الٰہی ہمارے ماموں ہیں ، ہمارے لئے قابل احترام ہیں ہمارا ان سے سیاسی اختلاف ہے ۔ چوہدری سالک کا یہ بھی کہنا ہے کہ میری ایک پھوپھو جو چوہدری پرویز الٰہی کے گھر موجود تھیں جب پولیس نے چھاپہ مارا اور گھر کے اندر داخل ہوئی تو انہوں نے پولیس کو بتایا کہ چوہدری پرویز الٰہی چوہدری شجاعت حسین کے پاس چلے گئے ہیں جس کے بعد ہمارے گھر کی طرف پولیس کا رخ ہو گیا اور پولیس نے جو کچھ کیا وہ ناقابل برداشت ہے ، ہم حکومت کے اتحادی ہیں اس معاملے پر اعلیٰ سطح پر بات کی جائے گی ۔ چوہدری شجاعت حسین کے والد محترم چوہدری ظہور الٰہی بھٹو دور میں جیلیں کاٹ چکے ہیں اور ان پر مشہور زمانہ بھینس چوری کا بھی کیس بنایا گیا تھا اور انہیں بلوچستان کی اسی مچھ جیل میں قید رکھا گیا جس کے متعلق وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ بار بار یہ کہتے رہے کہ جب بھی عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اسے مچھ جیل میں رکھا جائے گا لیکن ابھی تک ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی ۔ 1993-94کے بعد چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی جیل نہیں گئے ، پیپلزپارٹی کے دوسرے دور حکومت میں ایف آئی اے کے ایک کیس میں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الٰہی اڈیالہ جیل میں قید رہے ہیں جبکہ وزیراعظم شہبازشریف بھی اس وقت ان کے ساتھ ہی اڈیالہ جیل میں رہے ۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب شریف فیملی کو سعودی عرب جلا وطن ہونا پڑا تو اس وقت چوہدری پرویز الٰہی جو پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے تھے نے شہبازشریف کے بیٹے حمزہ شہباز سے مسلسل رابطہ رکھا اور ان کا خیال رکھتے رہے اور ان باتوں کا اعتراف شہبازشریف خود بھی کر چکے ہیں تاہم سیاست میں سیاسی رہنمائوں کی گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں ، عمران خان کے دور حکومت میں نوازشریف ، وزیراعظم شہبازشریف ، مریم نواز ، شاہد خاقان عباسی ،حمزہ شہباز ، خواجہ سعد رفیق ، خواجہ آصف سمیت دیگر رہنما گرفتار رہے اور انہوں نے باعزت طریقے سے اپنی گرفتاریاں پیش کیں ، حتیٰ کہ مریم نواز کو لاہور کی جیل سے میاں نوازشریف سے ملاقات کے دوران مریم نواز کو گرفتار کیا تھا اور ان کی فوری ضمانتیں بھی نہیں ہوئیں تھیں جبکہ عمران خان ہوں یا تحریک انصاف کے دیگر رہنما جن پر مقدمات بنتے ہیں ان کی فوری ضمانتیں ہو جاتی ہیں ۔ شیخ رشید 15دن سے زیادہ گرفتار نہیں رہے اور ضمانت ہو گئی ، چوہدری پرویز الٰہی کو چاہئے تھا کہ وہ چھپنے کی بجائے گرفتاری دے دیتے تو ان کے سیاسی قد کاٹھ میں بہت اضافہ ہوتا ، ویسے پولیس کی اس کارروائی سے بھی انہیں سیاسی طور پر فائدہ ہوا ہے ۔ دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف کو اس بات کا سخت نوٹس لینا چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کے اتحادی چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر پولیس نے جو کچھ کیا اور وفاقی وزیر سالک حسین کی بے عزتی کی گئی مگر ابھی تک وفاقی حکومت کی طرف سے اس معاملے پر نہ تو کوئی نوٹس لیا گیا اور نہ ہی پنجاب پولیس کے افسران کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے ۔