بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

اسمبلیاں تحلیل کرنے کی نئی شرط: عمران خان کے طرز عمل نے مذاکرات کی کامیابی داؤ پر لگادی

اسلام آباد(طارق محمود سمیر)حکمران اتحاد اور تحریک انصاف کے درمیان عام انتخابات ایک ہی روز میں کرانے کے معاملے میں مذاکرات کا آج ڈراپ سین متوقع ہے،یہ امکان بھی موجود ہے کہ دونوں اطراف سے مذاکرات کےلئے نامزد ٹیمیں پارلیمنٹ ہائوس میں فوٹو سیشن کے بعد میڈیا میں آکر یہ اعلان کریں کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے سمیت دیگر الزامات بھی عائد کئے جائیں، یہ مذاکرات کا عمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات شروع کرنے کے حکم کے بعد ہوا تھا جس کے دو ادوار ہو چکے ہیں اور آخری اور دوسرےدور میں دونوں اطراف کی مذاکراتی کمیٹیوں کے سربراہان اسحاق ڈار اور شاہ محمود قریشی نے مثبت رویہ اپنایا تھا اور یہ کہا تھا کہ اپنی اپنی قیادت سے رائے لے کر 2 مئی کا تیسرا دور کریں گے تاہم اس دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے بعض کڑی شرائط سامنے آئی ہیں جن میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات اگر ملتوی کرانا چاہتی ہے تو قومی اسمبلی اور دوصوبوں کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردیا جائے جسے (ن) لیگ نے یکسر مسترد کردیا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف،مریم نواز، وزیردفاع خواجہ آصف نے مذاکرات کی ناکامی کا کھل کراظہار کردیا ہے، نوازشریف نے جو گفتگو کی ہے اس میں واضح طور پر یہ کہہ دیا گیا کہ نہ قبل ازوقت انتخابات ہوں گے اور نہ ہی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، نوازشریف کی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ جون کا بجٹ وزیرخزانہ اسحاق ڈار پیش کریں اور اس میں عوام کو ریلیف دیا جائے اور اس کےلئے نوازشریف نے ہدایات بھی جاری کی ہیں،روسی پٹرول بھی پاکستان آرہا ہے، آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی آخری مراحلے میں ہے ، اگر یہ دونوں چیزیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر ن لیگ عوام کو کسی حد تک ریلیف دینے کی پوزیشن میں آجائے گی بصورت دیگر آج کی صورتحال میں ن لیگ انتخابات میں جاتی ہے تو اسے سیاسی طور پر ایسا نقصآن ہوگا جس کی تلافی میں کئی سال لگ سکتے ہیں اس لئے نوازشریف بہت احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار جنہیں مذاکراتی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا وہ اس وقت نوازشریف کے سب سے قابل اعتماد ساتھی ہیں اور انہیں وزیرخزانہ بنا کر نوازشریف نے بہت بڑا رسک لیا تھا اور اس کے نتیجے میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل ناراض ہیں،اسحاق ڈار جو موجودہ حالات میں وزیراعظم شہبازشریف سے بھی زیادہ بااختیار ہونے کے دعویدار ہیں اسی لئے بعض حلقے شروع میں یہ توقع کر رہے تھے کہ اسحاق ڈار کا مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی کمیٹی قبول کرنا نوازشریف کی مکمل حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے مگر نوازشریف نے اسحاق ڈار کو مذاکراتی کمیٹی کا سربراہ تو بنا دیا لیکن مذاکرات کی کامیابی کےلئے کوئی واضح مینڈیٹ نہیں دیا گیا، ن لیگ اپنے طور پر مذاکرات کو کامیاب اس لئے بھی نہیں بنا سکتی کیونکہ مولانا فضل الرحمان سخت موقف اختیار کر چکے ہیں اور مذاکرات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے ،دوسری جانب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جن کے حالیہ ایک بیان میں وزیراعظم شہبازشریف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے جس میں انہوں نے مفت آٹا تقسیم کرنے کے عمل کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ 20ارب روپے کی کرپشن کا الزام بھی لگا دیا ،گو کہ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے کسی وزیر ،مشیر پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا بلکہ یہ سسٹم ہی ایسا ہے جس میں اگر کوئی فلاحی کام کیا جائے تو بھی کرپشن ہوجاتی ہے ،ان دنوں بعض سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ ن لیگ کو زیادہ نقصان سابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کے 2017-18میں اختیار کئے گئے موقف نے پہنچایا یا جو کچھ آج کل شاہد خاقان عباسی کر رہے اس سے نقصان پہنچا ہے ، شاہد خاقان جنہیں نوازشریف نے اپنی نااہلی کے بعد وزیراعظم بنایا اور اس وقت وزارت عظمیٰ کے جو مضبوط امیدوار تھے ان میں وفاقی وزراء خواجہ آصف، احسن اقبال بھی شامل تھے جبکہ کسی حد تک چودھری نثار بھی امیدوار تھے لیکن چودھری نثار کے اختلافات بہت ہوچکے تھے اور وہ نوازشریف کی نااہلی سے قبل ہی بہت دوریاں اختیار کر گئے تھے لہذا ان کا نوازشریف کی نااہلی کے بعد وزیراعظم بننے کے امکانات بہت کم تھے اور مریم نواز ہوں یا دیگر سینئر قیادت تمام نے شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کا بہترین امیدوار قرار دے کر اس عہدے پر بٹھایا اور جب وہ 2018میں اپنی آبائی نشست مری کہوٹہ سے الیکشن ہار گئے تو نوازشریف نے انہیں لاہور سے حمزہ شہباز کی خالی ہونے والی نشست سے قومی اسمبلی کا رکن بنوایا حالانکہ اس نشست پر چودھری عابد شیر علی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا،میری موجودگی میں جب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی عدالت میں کیس چل رہا تھاتو شاہد خاقان کو نوازشریف نے فوری طور پر لاہور بجھوایا اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی ہدایت کی اور کاغذات جمع کرانے کی یہ آخری تاریخ تھی مگر اس سب کے باوجود شاہد خاقان عباسی اتنے ناراض کیوں ہوگئے ہیں ، مفتاح اسماعیل کی ان سے دوستی اپنی جگہ لیکن اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان نہ پہنچائیں اور پارٹی سے دوریاں اتنی نہ پیدا کریں کہ ن لیگ کے لئے دوسرے چودھری نثار بن جائیں ،چودھری نثار کی یہ خاصیت تو تھی کہ انہوں نے الیکشن ہارنے یا ہروائے جانے کے بعد سابق اسٹیبلشمنٹ کی کوئی پیشکش قبول نہیں کی حالانکہ انہیں بعض شخصیات نے تلہ گنگ ،پرویز الٰہی کی خالی کردہ نشست اور اٹک میجر طاہر صادق کی خالی کردہ نشست پر ضمنی الیکشن لڑنے کی پیشکش کی تھی جسے چودھری نثار علی خان نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ وہ کسی کی ادھار میں دی گئی نشست کے ذریعے اسمبلی میں نہیں پہنچنا چاہتے ۔