بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

عبدالرحمان کانجو کابینہ سے الگ ،جیپ پر کیسے سوار ہوگئے؟

اسلام آباد (طارق محمود سمیر) چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے پنجاب میں 14مئی کو انتخابات کرانے کے حکم پر عملدرآمد کے لئے کیس کی سماعت کل جمعہ کو 11بجے مقرر کر دی ہے ، یہ کیس اس وقت ملکی سیاست اور آئینی اور قانونی جنگ کے لحاظ سے بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے اس وقت اس کیس کی وجہ سے ملک کا سیاسی پارہ بھی بہت ہائی ہے جبکہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان لفظی جنگ نہ صرف شدت اختیار کر چکی ہے بلکہ نظام کے حوالے سے بھی بہت سے خطرات اور خدشات کااظہار کیا جارہاہے جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا یہ بیان بھی حکومتی حکمت عملی کو واضح کرتاہے کہ چیف جسٹس کو ڈی نوٹیفائی کیا جاسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز 14مئی کے انتخابات کی تاریخ پر نظر ثانی کی درخواست عدالت میں دائر کی تھی جس میں یہ موقف اختیا کیا گیا کہ انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اور عدالت نے تاریخ دے کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ سینئر وکیل اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر اس کیس میں الیکشن کیمشن کی طرف سے کل دلائل دیں گے ، خواجہ آصف سمیت دیگر وزراء قومی اسمبلی میں اپنے بیانات میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے آگے نہ جھکے گی اور نہ ہی تین رکنی بینچ کے احکامات تسلیم کئے جائیں گے جس سے یہ ظاہر ہو رہاہے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ کی لڑائی کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے ، بعض قانونی ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے اور اس میں اعتزاز احسن ، لطیف کھوسہ اور عمران خان کے حامی وکلاء یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پہلے مرحلے میں عدالت کو وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو شوکاز نوٹس دینا چاہئے جبکہ سیکرٹری خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کو بھی نوٹس جاری کئے جاسکتے ہیں۔ جبکہ وزیر قانون اور پی ڈی ایم کے حامی وکلاء کا یہ موقف ہے کہ عدالت اس معاملے میں اب توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ ریکارڈ کے مطابق وفاقی کابینہ نے 21ارب روپے کے فنڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا مگر قومی اسمبلی نے 21ارب روپے جاری کرنے کی منظوری نہیں دی لہذا وزیراعظم اور کابینہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی اور اگر عدالت نے توہین عدالت کی کارروائی کی تو پھر پوری قومی اسمبلی کے خلاف کرنا پڑے گی۔مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر صدیق کانجو مرحوم کے صاحبزادے عبدالرحمن کانجو نے داخلہ امور کے وزیر مملکت کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور انہوں نے آئندہ الیکشن آزاد حیثیت میں لڑنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ وہ 2013کا الیکشن بھی آزاد حیثیت میں جیت کر (ن) لیگ میں شامل ہوئے تھے اور 2018میں شیر کے انتخابی نشان پر کامیاب ہوئے ۔ لودھراں میں شہید کانجو گروپ سیاسی طور پر ایک مضبوط دھڑا ہے اور قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کرتا رہاہے اور اگر 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوتے ہیں تو لودھراں میں جن پانچ نشستوں پر کانجو گروپ نے امیدوار کھڑے کئے ہیں انہیں جیپ کا انتخابی نشان دیا گیا ہے اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان راولپنڈی کے حلقہ پی پی 10سے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ جیپ کے نشان نے 2018میں بھی شہرت حاصل کی تھی تاہم اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور نے میڈیا کی تنقید کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ جیپ گروپ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور چوہدری نثار علی خان آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے الیکشن ہار گئے تھے اور پی پی 10سے 34ہزار ووٹوں کی اکثریت سے الیکشن جیت گئے جبکہ چوہدری نثار علی خان کا یہ موقف رہا ہے کہ انہیں راولپنڈی کی قومی اسمبلی کی نشست سے دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا اگر وہ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست 34ہزار کی لیڈ سے جیتے ہیں تو قومی اسمبلی سے انہیں 22ہزار ووٹوں سے جن لوگوں نے ہرایا وہ بعد میں اس کا ازالہ کرنا چاہتے تھے اور انہیں اٹک ، تلہ گنگ کی نشستوں سے ضمنی الیکشن میں کامیاب کروانی کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن انہوں نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا تھا۔عبدالرحمن کانجو کی وزیراعظم شہبازشریف کے بیٹے سلمان شہباز سے بہت دوستی ہے ، دونوں کلاس فیلو بھی رہے ہیں میری معلومات کے مطابق شہبازشریف نے ابھی تک استعفیٰ منظور نہیں کیا اور سلمان شہبازکو عبدالرحمن کانجو کے پاس بھجوایا ہے کہ وہ استعفیٰ لینے کے لئے قائل کریں ۔علاوہ ازیں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے عدت کے دوران نکاح کے تنازع پر وزیراعظم کے مشیر عون چوہدری نے آج عدالت میں جوانکشافات کئے ہیں وہ کوئی نئے نہیں ہیں ایسی باتیں میڈیا میں اکثر آتی رہی ہیں تاہم اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ پہلی مرتبہ عدالتی فورم پر بات ہوئی ہے ، نکاح خواں مفتی سعید بھی اسی طرح کا بیان عدالت میں جمع کرا چکے ہیں ۔ میرا صرف اتنا سوال ہے کہ ان لوگوں کا ضمیر اب کیوں جاگا ہے اگر یہ دونوں کسی غیر شرعی اور غیر اسلامی ، غیر قانونی کام میں ملوث تھے تو اس وقت ان کا ضمیر کیوں نہیں جاگا ۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے ان کے بقول اس وقت غلط بیانی کی تو یہ خاموش کیوں تھے ، پھر عون چوہدری کا جب بشریٰ بی بی بنی گالہ میں داخلہ بند کرایا تو انہوں نے عثمان بزدار کی ایڈوائزری کیوں قبول کی ۔یہ وہی عون چوہدری ہیں جو عمران خان کی ہدایت پر سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاویدباجوہ سے ملتے رہے اور نوازشریف کے خلاف سازشوں کا مہرہ بنے رہے ، عمران خان کا پیغام جنرل باجوہ کے لئے لیکر گئے کہ 2018کے انتخابات سے قبل ہر صورت نوازشریف اور مریم نواز کو جیل میں ڈالنا ہے اور وہی ہوا جب نوازشریف اور مریم نواز بیمارکلثوم نواز کو چھوڑ کر لندن سے 13جولائی 2018کوئی لاہور ایئرپورٹ پر پہنچے تو انہیں گرفتار کر کے جیلوں میں پہنچایا گیا اور اب یہی عون چوہدری وزیراعظم شہبازشریف کے مشیر بنے بیٹھے ہیں ۔عون چوہدری عمران خان کے اتنے قریب تھے کہ جہاں تک ان کی رسائی تھی وہاں عمران خان کے دو سابقہ اے ٹی ایمز جہانگیر خان ترین اور علیم خان کی بھی رسائی نہیں تھی اور وہ بھی عون چوہدری کے ذریعے ہی عمران خان تک پہنچا کرتے تھے لیکن حالات نے پلٹا کھایا اور وہی عون چوہدری جس نے بشریٰ بی بی جن سے عمران خان کی ملاقاتیں کراتے تھے اور نکاح میں گواہ بنے اسی دوران بشریٰ بی بی عون چوہدری کی اصل حقیقت جان چکی تھیں اور عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی ان کے بنی گالہ داخلے پر پابندی لگائی ۔