بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

عمران خان کو حسب توقع بڑا ریلیف، چیف جسٹس کے ریمارکس قابل اعتراض ،تنقید کا سامنا

اسلام آباد(طارق محمود سمیر)
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کی طرف سے القادرٹرسٹ کیس میں گرفتار سابق وزیراعظم عمران خان کو رہا کرنے کا حکم دینا عمران خان کے لئے سب سے بڑا عدالتی ریلیف ہے اور حکومت اور اداروں کے لئے ایک واضح پیغام بھی ہے ۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی مین تین رکنی بینچ جس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے ، وہاں عمران خان کو ہنگامی بنیادوں پر پیش کیا گیا اور عمران خان کے پہنچتے ہی چیف جسٹس کے یہ ریمارکس کہ عمران خان صاحب آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے بڑے معنی خیز تھے اور کیا چیف جسٹس صاحب کو اس کے ساتھ یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ آپ کے کارکنوں نے قومی اداروں اور فوجی تنصیبات کو پرتشدد مظاہروں میں آگ لگائی اور میں ان کی مذمت کرتا ہوں مگر انہوں نے ایسا نہیں کہا بلکہ انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار اس انداز میں کیا کہ خان صاحب میری خواہش ہے آپ ان پرتشدد مظاہروں کی مذمت کریں ۔ عمران خان جو اس ملک کے سابق وزیراعظم ہیں اور نیب نے انہیں القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا تھا اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ان کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا اور گزشتہ روز احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے آٹھ روز کا ریمانڈ دیا ۔سپریم کورٹ میں پیشی کے موق پر جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ خان صاحب آپ نے نیب ترامیمی بل کو چیلنج کر رکھا ہے ، ماضی میں جب نیب کسی بھی ملزم کو گرفتار کرتا تھا تو نوے دن کا ریمانڈ ہوتا تھااور آپ اس نئے قانون کے پہلے بینیفشری ہیں اور اب صرف چودہ دن کا ریمانڈ ہو سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں جسٹس افتخار چوہدری کا دور ہو ، جسٹس سجاد علی شاہ کا دور ہو یا جسٹس ثاقب نثار کا دور ہو تمام وزرائے اعظم میاں نوازشریف ، یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف اور خود عمران خان سپریم کورٹ میں سائل کے گیٹ سے پیش ہوتے رہے ، آج عمران خان کو ججز کے گیٹ سے عدالت آنے کی اجازت دی گئی اور یہ بھی اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے ۔ سپریم کورٹ سے رہائی ملنے کے بعد عمران خان کا ریمانڈ بھی ختم ہو گیا ہے اور اگر کل ہائی کورٹ سے انہیں کوئی ریلیف نہ ملا تو دوبارہ گرفتاری کی صورت میں ان کا ریمانڈ دوبارہ لینا پڑے گا ، اس سارے عمل میں ایک بات تو یہ ہوئی ہے کہ توشہ خانہ کیس جس میں فرد جرم عائد ہونے کے معاملے پر تاخیر ہوتی رہی ، اٹھارہ مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ہنگامہ آرائی ہوئی اور عمران خان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی ، لیکن گزشتہ روز اس کیس میں فرد جرم عائد ہو گئی ہے اور اب تیرہ مئی کو عدالت نے استغاثہ کے گواہوں کو طلب کر لیا ہے ۔دریں اثناء عمران خان کی رہائی کے احکامات سے پہلے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے پریس کانفرنس میں گزشتہ دو دن میں ہونے والے واقعات پر روشنی ڈالی اور عمران خان کو سیاسی لیڈر کے بجائے دہشت گرد تک کہا اور چیف جسٹس کے ریمارکس پر تحفظات کا اظہار کیا اور یہ سوال اٹھایا کہ جب میاں نوازشریف ، مریم نواز ، رانا ثناء اللہ اور (ن) لیگ کے دیگر لیڈروں کو گرفتار کیا جاتا تھا تو اس وقت عدالتوں میں تاخیر کیوں ہوتی تھی اور اب ایک لاڈلے کو فائدہ پہنچایا جارہاہے ۔ مریم اورنگزیب کے ان سوالات میں کافی وزن ہے کیونکہ جب بھی نیب نے (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو گرفتار کیا تو انہیں ایک ڈیڑھ سال جیلوں میں رہنا پڑا اور پھر ضمانتیں ہوئیں ۔