بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

پاکستانی سائنسداں نے زحل کے چاند پر حیات کے لیے ضروری فاسفورس دریافت کرلیا

  کراچی: پاکستانی سائنسداں اس اہم ٹیم کا حصہ ہیں جس نے ہمارے نطامِ شمسی میں حیات کے لیے ایک ضروری عنصر دریافت کرلیا ہے۔

کائنات میں کسی زندگی کے آثار تلاش کرنے والی اس ٹیم میں ڈاکٹر نوزیرخواجہ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو یونیورسٹی آف فِریئے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سیارہ زحل کے برفیلے چاند، اینسلیڈس پر فاسفورس دریافت کیا ہے جو حیات کے لیے انتہائی ضروری لیکن نایاب عنصر بھی ہے۔

جامعہ فِریئے سے وابستہ پروفیسر فرینک پوسٹبرگ بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ ہیں جنہوں نے کئی برس تک ناسا کے خلائی جہاز کیسینی کے ڈیٹا کا بغورجائزہ لے کر بتایا ہے کہ اینسلیڈس چاند کی گہرائی ایک وسیع سمندر موجود ہے جہاں فاسفیٹس کی شکل میں فاسفورس موجود ہے۔ یہ تحقیق بدھ 15 جون 2023 کو ممتاز سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے۔

’ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ اینسلیڈس کے سمندری پانی میں بڑی مقدارمیں فاسفیٹس موجود ہیں اور ہمارے ارضی کیمیائی تجربات بتاتے ہیں کہ کہ آخر زمینی سمندر کے مقابلے میں اینسلیڈس کے بحر میں اس اہم مرکب سے کیوں مالامال ہے،‘ پروفیسر فرینک پوسٹبرگ نے ایکسپریس کو بتایا۔

حیات کے چھ اہم اجزا ایک ہی جگہ موجود

فاسفورس ہماری زمین پر بھی ایک نایاب عنصر ہے جو مٹی کو زرخیز تو بناتا ہی ہے لیکن زندگی کی کتاب ڈی این اے اور اس سے وابستہ آراین اے کی تشکیل میں بنیادی ڈھانچے کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے برفیلا اینسلیڈس حیات کے لیے ایک موزوں ترین امیدوار ہوسکتا ہے۔

’اینسلیڈس پر فاسفیٹ کی دریافت کے بعد وہاں زندگی کے لیے انتہائی ضروری چھ اہم عناصر کی تعداد پوری ہوچکی ہے جن میں کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن، فاسفورس اور سلفر شامل ہیں،‘ تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر نوزیرخواجہ نے اپنی ای میل میں ایکسپریس کو بتایا۔

ہم جانتے ہیں کہ فاسفورس حیات کے لیے انتہائی بنیادی اینٹ کی طرح ہے جو ڈی این اے کے علاوہ بھی حیات کے لیے بہت ضروری ہے۔

’اس (فاسفورس کی) دریافت کے بعد زحل کا چاند زمین سے ماورا زندگی کی تلاش کے لیے ایک اہم مقام بن چکا ہے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ جدید آلات وٹیکنالوجی سے لیس نئے خلائی مشن اس جانب بھیجے جائیں تاکہ ہم حقیقی طور پر جان سکیں کہ آیا اس کا سمندر میں حیات کے لیے کتنا اور کس قدر موزوں ہے،‘ ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے مزید کہا۔

کیسینی خلائی جہاز

صرف 500 کلومیٹر وسیع انسلیڈس ، سیارہ زحل کا چھٹا بڑا چاند ہے۔ اس کی تسخیر کا سہرا ناسا کے شاندار خلائی مشن، کیسینی کے سر جاتا ہے جو 2004 میں حلقوں والے خوبصورت زحل پر پہنچا تھا۔ کیسینی نے کل 453,048 تصاویر لیں کو اس سیارے اور چاندوں کی تھیِ اس نے سیارے کے درجنوں چاندوں کے 162 چکر کاٹے جو منصوبے کے تحت تھے۔ اسی خلائی جہاز نے مزید چھ چاندوں کی دریافت میں ہماری مدد کی۔ سب سے بڑھ کر 635 جی بی ڈیٹا بھیجا جس پرآج بھی غور جاری ہے۔ اس ڈیٹا اور معلومات کی روشنی میں ہم زمین والوں نے ایک دو نہیں بلکہ 3948 تحقیقی مقالے تحریر کئے۔ پھر 2017 میں اسے جان بوجھ کر زحل کی فضا میں دھکیل کر آخری سفر پر روانہ کیا گیا جہاں یہ تباہ ہوگیا۔ لیکن یاد رہے کہ کیسینی کا ڈیٹا مزید کئی برس تک سائنسدانوں کو تحقیق اور دریافت میں مصروف رکھے گا۔

کیسینی پر لگے ’کاسمک ڈسٹ اینالائزر‘ یا سی ڈی اے نے 2015 بتادیا تھا کہ اینسلیڈس محض برف کا گولہ نہیں بلکہ اس کے نیچے ایک وسیع سمندر ہے۔ پھر چاند کے سمندر کے فرش پر چمنی نما وینٹ ہیں جن سے خارج ہونے والے برفیلے ذرات پھوار کی طرح اوپر جاتے ہیں۔ چاند کی برفیلی چادر جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی ہے۔ برفیلے ذرات  کچھ گیسوں کے ساتھ وہاں سے باہر آرہے ہیں اور کیسینی پر نصب سی ڈی آلے کے طیف پیما (اسپیکٹرومیٹر) نے ان کی تفصیلات جمع کیں۔

اس ڈیٹا کے طویل مطالعے کے بعد ڈاکٹر فرینک، نوریز خواجہ اور دیگر ماہرین نے احتیاط سے دیکھا کہ بعض ذراعت میں فاسفیٹس کے اشارے ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب اینسلیڈس پر فاسفورس کی دریافت کا باضابطہ اعلان کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر نوزیر خواجہ فلکی حیاتیات (ایسٹروبیالوجی) کے شعبے میں بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل اینسلیڈس پر حیاتیات کے لیے موزوں ایک سالمہ بھی دریافت کرچکے ہیں۔ ان کے تحقیق مقالہ جات، نیچر اور منتھلی نوٹسس آف دی رائل ایسٹرونامیکل سوسائٹی میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔

وزیرآباد میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے پنجاب یونیورسٹی سے خلائی سائنس و فلکیات میں ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی اور جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی سے ارضی علوم میں ڈاکٹریٹ کے بعد اسی جامعہ کے ارضیاتی تحقیقی ادارے سے وابستہ ہوئے۔

واضح رہے کہ برلن میں واقع یونیورسٹی آف فِریئے میں فلکی حیاتیات کے شعبے کے قیام میں ڈاکٹر نوریز خواجہ نے اہم اور بنیادی کردار بھی ادا کیا ہے۔ اب وہ ناسا کے یوروپا اسپیس کلپر مشن پربھی کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان کی خلائی ایجنسی (جاکسا) کے ڈیسٹنی پلس مشن پر بھی تحقیق امور سے وابستہ ہیں۔

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر حیاتیات کے تجربات میں بھی ڈاکٹر نوریز پیش پیش ہیں۔