بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

صحافتی برادری کا محسن۔ عبداللہ بٹ

تحریر: نواز رضا

صحافی برادری کے محسن ،آن ٹی وی ، روزنامہ ممتاز و ممتاز سٹی و ممتاز کنسٹرکشن کمپنی کے بانی عبداللہ بٹ وفات پا گئے ان کی کمی مدتوں محسوس کی جائے گی عبداللہ بٹ کاشمار ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ صحافتی برادری کی خدمت کی یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے انہوں نے بے گھر صحافیوں کو سر چھپانے کے لئے رعائتی نرخوں پر پلاٹ دئیے کوئی صحافی علیل ہو یا اسے مدد کی ضرورت انہوں نے کبھی ضرورت مند صحافی کو مایوس نہیں کیا مجھے ذاتی طور پر علم ہے انہوں نے کئی صحافیوں کے پورے علاج کا ذمہ لے لیا علاج پر لاکھوں روپے خرچ کر دیئے لیکن ہاتھ نہیں کھینچا۔مرحوم عبداللہ بٹ نے ابتدا میں دو اخبار آرٹ کے ڈیکلریشن حاصل کئے تھے لیکن ان کی باقاعدہ اشاعت شروع نہیں کی میں نے ان کو ایک اخبار کا ڈیکلریشن لینے کی پیشکش کی تو انہوں نے کہا کہ اخبار نکالنے کا ارادہ نہیں البتہ اس اخبار کے مالکان کی مدد کر سکتا ہوں انہوں نے اس وقت اخبار کی اشاعت میں دلچسپی نہیں لی روزنامہ ممتاز اسلام آباد کا ڈیکلریشن حاصل کیا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی روزنامہ ممتاز کی ادارت عملا” ان کے بھائی سینئر صحافی طارق بٹ کے پاس ہے یہی وجہ ایک پیشہ ور صحافی کی نگرانی کی شائع ہونے والے اس اخبارنے دنوں میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اپنا مقام پیداکر لیا خوبصورت طباعت نے روزنامہ ممتاز کو مزید پرکشش بنا دیا نامور کالم نویسوں کی تحریریں اس کی زینت بننے لگیں ہر روز نامور کالم نویسوں کا گلدستہ پیش کیا جاتا ہےکم وسائل میں محدود سٹاف کی مدد سے عمدہ اخبار کی اشاعت ان کا طرہ امتیازہے عبداللہ بٹ نے ” آن “کے نام سے انٹرٹینمنٹ کاٹی وی بھی شروع کیا ان کا نیوز چینل کے اجراء کا ارادہ بھی تھا لیکن موت نے ان کو مہلت نہ دی اب اس ادارے کو مزید ترقی اور وسعت دینے کی ذمہ داری عاقل جمال بٹ اورڈاکٹر احسن طارق بٹ کے سر آن پڑی ہے عبد اللہ بٹ کا شمار ملک کے بڑے ہائوسنگ پراجیکٹ کے مالکان میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی دیانت داری اور عام آدمی کی خدمت کی کمٹمنٹ سے ہائوسنگ کے شعبہ میں خوب نام کمایا۔ ابتدا میں’’ ٹاپ‘‘کا انتظام و انصرام ان ہی کے پاس تھا اس پراجیکٹ میں انہوں نے صحافیوں کو بلا بلا کر پلاٹ دئیے بعد ازاں ان کی تمام تر توجہ ممتاز سٹی تک محدود ہو کر رہ گئی وہ سوشل تقریب میں بہت کم نظر آتے تھے ان کا اوڑھنا بچھونا اپنے پراجیکٹس کی دیکھ بھال تھا وہ بہت کم فون ایٹنڈ کرتے تھے لیکن انہوں کبھی کسی کو اپنی علالت بارے میں نہیں بتایا جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں اور لندن میں زیر علاج ہیں تو بڑی تشویش ہوئی ان کے بھائی طارق بٹ جو ان کے علاج کے دوران ہر وقت ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے ان سے لندن فون پر رابطہ کرکے عبداللہ بٹ مرحوم کی خیریت دریافت کرتا رہتا تھا وہ پچھلے دنوں ہی صحتیاب ہو کر وطن واپ آئے تھےمنگل کو میرے برادر اصغر طارق محمود سمیر جو روزنامہ ممتاز سے وابستہ ہیں نے عبداللہ بٹ کی وفات کی روح فرسا خبر سنائی تو دل ڈوب ہی گیا۔ عبداللہ بٹ کی وفات کا بہت دکھ ہوا ایک تو وہ میرے دوست طارق بٹ کے بڑے بھائی تھے دوسرے وہ صحافیوں کے محسن۔ جہاں تک ان کی ذات کا تعلق ہےوہ میرے ساتھ بڑے مہربان تھے جب کبھی فون کیا انہوں نے علالت کے باوجود فون ایٹنڈ کیا عبداللہ بٹ نے ممتاز کنسٹرکشن کمپنی بھی بنائی ۔ جب روزنامہ کے اجرا کا پروگرام بنایا تو انہوں نے بھی اس کا نام “ممتاز” ہی رکھا آج ممتاز نام ہی کامیابی کی علامت بن گیا عبداللہ بٹ کا پختہ عقیدہ تھا یہ سب کچھ انہیں اپنی والدہ محترمہ کی خدمت کے طفیل حاصل ہوا عبداللہ بٹ کو اللہ تعالیٰ نے جس قدر دولت سے نوازا اسی قدر ان میں انکساری پائی جاتی تھی اللہ تعالیٰ انہیں بے پناہ دولت دی تو انہوں نے بھی اللہ تعالٰی سے تجارت کر لی اور اپنی تجوریاں غریب لو گوں کے لئے کھول دیں وہ سمجھتے تھے یہ دولت کسی کےساتھ نہیں جاتی صرف اعمال ہی جاتے ہیں انہوں نے اپنی آخرت سنوارنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ عبداللہ بٹ کا شمار بڑے ہائوسنگ پراجیکٹ کے مالکان میں ہوتا تھا کبھی ان کے خلاف انگلی نہیں اٹھی دیانت داری ان کااصول تھا بروقت اور کمٹمنٹ کے مطابق خریداروں کو پلاٹ دئیے انہوں نے موٹروے اور شاہراہ سرینگر کے سنگم پر’’ممتاز سٹی‘‘ قائم کیا جو اسلام آباد انٹرنیشنل سے چند کلو میڑ کے فاصلے ہے انہوں نے موٹروے کے ساتھ ایک نیا شہر آباد کرنے کو پروگرام بنایا جو آج پایہ تکمیل کو پہنچنے والا ہے انہوں نے دیگر ٹائیکونز کی طرح کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ سیاست سے دور رہے وہ نظریاتی طور اسلام اور نظریہ پاکستان کے علمبر دار تھے وہ پاکستان کی اس منزل کے حصول کے پر جوش حامی رہے ہیں ان کی وفات سے ملک ہائوسنگ پراجیکٹ کی ایک بڑی شخصیت سے محروم ہو گئی ہے وہاں صحافی برادری کے سرپرست اس سفر پر چلے گئے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی پورا شہر ہی عبداللہ بٹ کو الوداع کہنے کے لئے ایچ -11 اسلام آباد قبرستان پہنچ گیا جن میں راولپنڈی و اسلام آباد کے صحافیوں ، کاروباری شخصیات اور اعلی حکام کی ایچ – 11 قبرستان میں گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں ہر شخص غمگین تھا ۔مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افرادکا کہنا تھا کہ مرحوم عبداللہ بٹ ایک زندہ دل انسان اور منفرد شخصیت کے مالک تھے، سخاوت،ملنساری اور غریب پروری ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی عبداللہ بٹ ایک خدا ترس اور سخی انسان تھے، ان کی زندگی جہدمسلسل کی شاندار مثال تھی عبداللہ بٹ کا اچانک اپنے پیاروں سے بچھڑ جانا ایک بڑا صدمہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے جسے مدتوں پورا نہیں کیا جا سکے گا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔