بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

مہنگائی کے طوفان کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

پاکستان اور اس کے عوام کے لئے پچھلا معاشی سال عمومی طور پر پریشان کن ہی رہا۔ معیشت کے اشاریے تو ارباب اختیار اور تجزیہ کاروں کی ہی دلچسپی کی چیز ہے، عوام کو تو زندگی کی گاڑی گھسیٹنی ہوتی ہے اور اس میں ان کا مقابلہ تو بس مہنگائی یا اس میں اضافے کی شرح کے جن سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اس عرصے کے دوران یہ جن اس قدر بے قابو رہا کہ تین ماہ پہلے تک تو تاریخ کی بلند ترین شرح یعنی کہ 48 فیصد تک بھی دیکھی گئی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کی آکسیجن ملنے کے بعد اتنی کمی ضرور آئی کہ پی ڈی ایم حکومت کی رخصتی کے وقت گر کر 30 فیصد تک آ گئی تھی، مگر یہ شڑح بھی کسی بھی ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہی گنی جا سکتی ہے۔

آخر اس بلند شرح مہنگائی کی وجوہات کیا تھیں؟ کہنے کو تو بہت سی بیان کی جا سکتی ہیں جن میں بین الاقوامی طور پر مہنگائی کا رجحان اور بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی شامل ہیں، مگر ان سب سے بڑا تازیانہ ہمارے اوپر روپے کی قدر میں مسلسل کمی کا پڑتا رہا جس نے ہمارے معاشی قائدین کو اس سال کے دوران کسی طرح بھی سنبھلنے ہی نہیں دیا۔ظاہر ہے کہ روپے کی گراوٹ ایسی بلا ہے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف درامد کردہ پٹرول اور دوسری اشیا کے نرخ بڑھ جاتے ہیں، بلکہ اس کا بالواسطہ اثر لا محالہ مقامی پیداواری لاگت اور مصنوعات و اجناس پر بھی پڑ جاتا ہے۔

مگر آخر ایسا کیا ہوا کہ روپیہ گرتا ہی چلا گیا؟ بنیادی طور پر تو اس کا اتار چڑھاؤ بھی طلب اور رسد کے فرق سے ہی عبارت ہوا کرتا ہے، مگر ہمارے یہاں ایک بڑی مصیبت ہمارا بے تحاشہ مقروض ہونا ہے، جس کی وجہ سے پچھلے قرضوں اور سود کی ادائیگی کے لئے ہمیں مسلسل نئے قرضوں کی ضرورت رہتی ہے۔ اب یہ ایسا ایک گھن چکر ہے کہ جس نے ہمیں مستقل طور پر آئی ایم ایف اور دوسرے سرمایہ دار ممالک کا محتاج بنا رکھا ہے۔ جہاں کہیں آئی ایم ایف اپنے امدادی پیکج کو روکتا یا اس میں تاخیر کرتا ہے، اس بے یقینی سے منی مارکیٹ میں ہماری کرنسی کی بیقدری کو بھی پر لگ جاتے ہیں، جس سے مہنگائی بھی پڑھنے لگتی ہے اور حکومت بھی دباؤ میں آ جاتی ہے۔

اب اس سب کو قابو میں رکھنا ملکی ارباب معیشت کا کام ہوتا ہے، اور اس بلند شرح مہنگائی میں ظاہری طور پر ان ہی کی نااہلی نظر آتی ہے، مگرتھوڑا سا تجزیہ کر لیا جائے تو ہمارے یہاں اور بھی بہت کچھ نظر آئے گا جس میں سب سے افسوسناک عنصر اپنوں ہی کی سازشیں ہیں جو کہ ایسی صورت حال کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے لگتے ہیں۔

اس مالی سال کے دوران حزب اختلاف کے قائد عمران خان صاحب کی ملکی مسند اقتدار پر تشریف آوری تو سن 2018 میں ہوئی مگر ان کا سیاست میں داخلہ نوے کی دہائی میں کچھ مہربانوں نے کروا دیا تھا۔ بحیثیت انسان اچھائیاں برائیاں تو سب میں ہوتی ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے جارحانہ انداز سیاست کا ایک مخصوص عنصر مخالف حکومت کو معاشی طور پر فیل کرنے کی کوششیں کرنا بھی رہا ہے۔ شاید سب کو یاد نہ ہو مگر یہ ریکارڈ پر ہے کہ میاں صاحب کے دور حکومت میں سن 1999 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ان کا ہاتھ پاکستان کی امداد کی بندش میں بھی بذریعہ انٹرنیشنل لابنگ شامل رہا تھا۔

اگرچہ خان صاحب مشرف کے زمانے میں تو اپوزیشن میں ہی رہے مگر اس کے کچھ عرصے بعد ہی ان پر قسمت کی دیوی مہربان ہوئی اور وہ منظور نظر بنتے چلے گئے۔ سن 2013 میں میاں صاحب کی حکومت بنی تو اس کے خلاف لندن پلان کی سازش تیار کی گئی، جس میں کہ کلیدی کردار خان صاحب کی دارالحکومت پر چڑھائی کا تھا۔ یہ تمام کھیل چار ماہ کے مسلسل دھرنے پر منتج ہوا جس کے دوران حکومت کو عملی طور پر مفلوج کر دیا گیا۔ معاشی میدان میں خان صاحب نے نہ صرف بجلی کے بل جلا کر اور ڈالروں کے لئے ہنڈی کی ترغیب دے کر خزانے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی بلکہ دھرنے سے جی ڈی پی گروتھ خراب کرنے اور چینی سرمایہ کاروں کو بھگانے کا بھی سبب بنے۔ کل نقصان کا اندازہ 800 ارب تک تھا۔

اس تاریخی خلاصے کے بعد اب ہم پچھلے سال بننے والی پی ڈی ایم حکومت اور اس کے زیر سایہ ہونے والی مہنگائی کی طرف آتے ہیں۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس تبدیلی سے بھی پہلے، اس کے آثار نظر آتے ہی خان صاحب کی پارٹی نے آنے والوں کے لئے معاشی بارودی سرنگیں بچھانا شروع کر دی تھیں جن کا اعتراف شیخ رشید صاحب اعلانیہ بھی کر چکے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سبسڈی دینا تھا، جس سے کہ مہنگائی کے طوفان پر ایک عارضی بریک لگا کر اصل طوفان پی ڈی ایم کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔

اب کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام شروع ہی خان صاحب نے کیا تھا، اس لئے ان کو اچھی طرح اس کی آنے والی منزلوں کا بھی اندازہ تھا اور ان میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔ مثال کے طور پر 25 مئی کا لانگ مارچ چالاکی سے آئی ایم ایف ٹیم کی آمد کے دنوں میں رکھا گیا تاکہ اس شور شرابے سے ریویو کو خراب کیا جا سکے۔ معیشت کے خلاف اس سے بھی زیادہ شرمناک سازش پچھلے سال اگست میں سامنے آئی جبکہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب کی ایک آڈیو لیک ہو گئی جس میں وہ پنجاب اور کے پی حکومتوں کو آئی ایم ایف کو دی گئی یقین دہانیوں سے پھر جانے کی تلقین کرتے پائے گئے تاکہ پی ڈی ایم حکومت کو سبق سکھایا جا سکے۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی اس مضمون کا خط وہاں سے لکھ بھی دیا گیا۔ یعنی کہ دانستہ آئی ایم ایف معاہدہ سبوتاژ کرنے کی کوشش ہوتی رہی جس سے کہ فائنل معاہدہ ایک سال التوا کا شکار رہا، جبکہ اس دوران ڈالر ریٹ اور مہنگائی کے سیلاب نے عوام کی چیخیں نکلوا دیں۔

اس طرح کی سازشیں صرف آئی ایم ایف پروگرام کے خلاف ہی نہیں ہوئیں بلکہ خان صاحب کے ساتھی کھلم کھلا عالمی برادری کو پاکستان کی امداد کے خلاف اکساتے رہے جن میں امریکی کارکنوں کی کانگریس کو کی گئی لابنگ بھی شامل تھی۔ فواد چوہدری صاحب نے تو دنیا کو پاکستان کے بائیکاٹ کرنے کی دعوت تک دے ڈالی۔ سیلاب کے پریشان کن دنوں میں بھی شاندانہ گلزار صاحبہ اور دوسروں نے حکومت کو امداد نہ بھیجنے کی شرمناک مہم چلائے رکھی، حالانکہ اس سے مصیبت کے مارے سیلاب زدگان کے مصائب میں اضافہ ہی ہونا تھا۔

خان صاحب کے ساتھیوں کی طرف سے ایک اور مہم پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی پیش گوئیوں کی چلائی گئی۔ اس کے ذریعے ہوشیاری سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا تاثر پیدا کر کے اور سرمایہ کاروں اور قرض خواہوں کا اعتماد متزلزل کر کے حکومت اور عوام کی مشکلات میں دانستہ اضافہ کیا گیا۔ ظاہری طور پر اسی کی وجہ سے حکومت کو شرح سود کو خطرناک حد تک لے جانا پڑا اور مہنگائی میں خواہ مخواہ مزید اضافہ ہوا۔

اس دوران خان صاحب نے خزانے پر ایک اور حملہ اپنے اوورسیز کارکنوں کے ذریعے کیا کہ وہاں پاکستانیوں کو نارمل ترسیلات زر روکنے کی ترغیب دی گئی، حالانکہ یہاں بھی یہ واضح تھا کہ اس کا نتیجہ ڈالر ریٹ اور مہنگائی کے بڑھنے کی صورت میں ہی نکلے گا جس سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔

معیشت دان یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاسی ہنگامہ آرائی ہمیشہ ملک کی معیشت اور جی ڈی پی گروتھ کے لئے ازحد نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس پہلو سے بھی خان صاحب کے معیشت پر حملے مسلسل لانگ مارچوں اور پرتشدد احتجاجوں کی صورت میں جاری رہے، جس کے نتیجے میں اس سال کی ملکی جی ڈی پی گروتھ ابتدائی اندازوں کی نسبت ساڑھے چار فیصد کے قریب کم رہی اور پی ٹی آئی کو حکومت پر تنقید کرنے کا مزید موقع ملتا رہا۔ اعداد کی زبان میں اس نقصان کا اندازہ 1800 ارب تک لگایا جا سکتا ہے۔

اس تجزیے سے قارئین پر اچھی طرح واضح ہو گیا ہو گا کہ پچھلے مالی سال کی خوفناک مہنگائی کا اصل سبب متواتر معاشی سازشوں کی ایک لڑی تھی جس کا مقصد ہی اس مہنگائی کو بڑھانا اور حکومت کو بدنام کرنا تھا، گو کہ خکومتی غلطیوں کے بھی اثرات پڑے ہوں گے۔ اب ان سازشوں کے پیچھے کون سا نیا لندن پلان چل رہا تھا یا خان صاحب کے پرانے سہولت کار فیض صاحب وغیرہ کتنے شامل تھے، شاید وقت ہی ہمیں بتا سکے۔ اس وقت تو تلخ حقیقت یہی ہے کہ ہوس اقتدار کے اس گھناؤنے چکر میں بیچارے غریب عوام ہی پستے اور مار کھاتے رہے۔ مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اپنوں اور بظاہر غریبوں کا غم کھانے والوں کے ہاتھوں ہی ہوتا رہا۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اب اس کو کیا کہئیے۔ شاید یہ سب کچھ ہماری قومی شامت اعمال ہی ہے۔
تحریر:ایس۔ آئی۔ قریشی