بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ایک غیر معمولی بیوروکریٹ کیلئے غیر معمولی الوداع

وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور ان کی کابینہ نے پیر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سویلین بیوروکریسی کے شاندار افسر سمجھے جانے والے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کو غیر معمولی انداز میں الوداع کیا۔

تین دہائی طویل تک کے شاندار کیریئر کے بعد وہ منگل کو ریٹائر ہوئے۔ کابینہ کے ایک ر کن کے مطابق، وزیراعظم کاکڑ نے اپنے سبکدوش ہونے والے پرنسپل سیکریٹری کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور پوری وفاقی کابینہ نے وزیراعظم کی رائے کی تائید کی۔

ایک ذریعے نے وزیراعظم کے حوالے سے کہا، ’’ڈاکٹر توقیر انتہائی ایماندار، محنتی اور متوازن افسر ہیں اور میں نے ایسا افسر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ان کی ساکھ بہت ہی شاندار ہے.

انہوں نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز سے میری اور وفاقی حکومت کی معاونت کی۔‘‘ تمام وزراء نے متفقہ طور پر وزیراعظم کے خیالات کی تائید کی اور سبکدوش ہونے والے سینئر سرکاری افسر کو الوداع کیا۔ ڈاکٹر توقیر نے 1991 میں ڈی ایم جی / پی اے ایس میں شمولیت اختیار کی۔

اسسٹنٹ اور ڈپٹی کمشنر کے طور پر اپنے فیلڈ تجربے کے صرف 6؍ سال بعد ہی ڈاکٹر توقیر کی ایک ہونہار نوجوان افسر کی شہرت نے انہیں 1997 میں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف (جنہیں ایک مشکل سربراہ سمجھا جاتا ہے) کا ڈپٹی سیکرٹری بننے کا موقع دیدیا۔

ڈاکٹر توقیر نے وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور بعد میں جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تو ڈاکٹر توقیر کو وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔

شہباز شریف بھی کھل کر ڈاکٹر توقیر کی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانتداری کا اعتراف کر چکے ہیں۔

شہباز شریف کے قریبی ساتھی ہونے کی وجہ سے جنرل مشرف کے دور میں اور جاوید اقبال کے بطور چیئرمین نیب کے دور میں بھی ڈاکٹر توقیر کے کام اور سرکاری فائلوں پر ان کے ریمارکس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی گئی لیکن ان کیخلاف کچھ نہیں ملا کیونکہ وہ ایک غیر معمولی اور ایسے افسر رہے ہیں جس نے وہ پلاٹس تک لینے سے انکار کر دیا جو سینئر بیوروکریٹس کو الاٹ کیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر توقیر شاہ نے اپنی عوامی خدمت کے دوران اقوام متحدہ کے مختلف اداروں میں بھی خدمات انجام دیں۔ وہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) اور انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر جنیوا میں سینئر مشیر رہ چکے ہیں۔

ڈاکٹر توقیر کے سول سروس کیرئیر کی اہم بات ان کی 2015-2018 کے دوران ڈبلیو ٹی او جنیوا میں پاکستان کے سفیر کے طور پر تقرری تھی، وہ تجارت اور ماحولیات کے بارے میں ڈبلیو ٹی او کے اہم ادارے کے چیئرمین منتخب ہوئے، اور ڈبلیو ٹی او کے قانون کیلئے مشاورتی مرکز کے بورڈ پر بھی رہ چکے ہیں۔

ان کے تبادلے پر، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ڈبلیو ٹی او نے بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور حکومت پاکستان کو خط لکھا کہ ڈاکٹر توقیر نہ صرف ڈبلیو ٹی او میں پاکستان کے مفادات کی نمائندگی کرنے میں اپنے مضبوط کردار کی وجہ سے بلکہ اپنے ساتھی سفیروں کی عزت افزائی کی وجہ سے جنیوا میں سب سے زیادہ قابل احترام سفیروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ڈی جی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ میں ڈاکٹر توقیر شاہ اور ان کی جانب سے جنیوا میں کئی اہم پالیسی بریفس میں جو کلیدی کردار وہ ادا کرتے رہے ہیں اس کا بیحد احترام کرتا ہوں۔

اس میں تجارت اور ماحولیات پر گفت و شنید گروپ کے چیئر کے طور پر ان کا کام شامل ہے، لیکن شاید اس سے بھی زیادہ ہمارے سامنے کچھ دیگر اہم مسائل جیسے کہ ای کامرس جہاں ڈاکٹر توقیر شاہ نے فرینڈز آف الیکٹرانک کامرس فار ڈیولپمنٹ کے کام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یقیناً اس کے علاوہ بھی بہت سے اہم مسائل ہیں جہاں وہ زراعت اور ترقی سمیت یکساں کردار ادا کر رہے ہیں۔

سفیر شاہ جنیوا میں سب سے زیادہ قابل احترام سفیروں میں سے ایک ہیں۔ 2017 میں ڈاکٹر توقیر کی نگرانی میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تنازعات کے تصفیے کے سرکردہ ادارے نے مشہور Polyethylene Terephthalate کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹی کیس میں یورپی یونین کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔

تجارتی ماہرین نے اسے جنیوا کے کثیرالجہتی فورم میں پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا تھا۔

ڈبلیو ٹی او میں ڈاکٹر توقیر کے کیریئر کا عروج اس وقت تھا جب وہ ڈبلیو ٹی او میں روس اور امریکا کے درمیان تجارتی تنازع کا فیصلہ کرنے کیلئے تین رکنی تجارتی تنازعات کے پینل میں جج تھے۔ یہ وہ فورم ہے جس پر ڈاکٹر توقیر اب بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی ایڈمنسٹریٹیو سروس کے پہلے افسر ہیں جنہوں نے سروس میں رہتے ہوئے بھی یہ اعزاز حاصل کیا جسے ان کی پیشہ ورانہ مہارت اور مہارت کا عالمی اعتراف قرار دیا گیا۔

ڈاکٹر توقیر کے پاس ایک قابل علمی کیریئر بھی تھا۔ وہ لیڈ انٹرنیشنل کے فیلو ہیں۔ یہ عالمی پائیدار ترقی کے حوالے سے سرگرم ایک تھنک ٹینک ہے۔

وہ لیڈ پاکستان کے بورڈ آف گورنرز میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور براؤن یونیورسٹی رہوڈ آئی لینڈ امریکا کے عالمی پروگرام سے واٹسن انوائرمنٹ فیلو ہیں۔

پائیدار ترقی کیلئے نیدرلینڈز میں سسٹین ایبل چیلنج فاؤنڈیشن کے فیلو ہیں، ڈیوک یونیورسٹی نارتھ کیرولینا سے فلیش مین سول سوسائٹی کے فیلو ہیں، جس میں گلوبل گورننس میں سول سوسائٹی کے کردار پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے، اور 2016 میں متفقہ طور پر ڈبلیو ٹی او کمیٹی برائے تجارت اور ماحولیات کی سربراہی کیلئے بھی منتخب ہوئے تھے۔

انہوں نے 1998 میں شیوننگ اسکالر کے طور پر مانچسٹر یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیا تھا۔

شہباز شریف کے کلیدی اسٹاف ممبر کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے ڈاکٹر توقیر کے ساتھ تعلقات اچھے نہ رہے اور اسی وجہ سے انہیں پورے عرصہ کے دوران او ایس ڈی بنا دیا گیا۔

ڈاکٹر توقیر کو ان کے شاندار سروس ریکارڈ کے باوجود عمران حکومت کے دوران گریڈ 22میں ترقی دینے کے معاملے میں نظر انداز کر دیا گیا۔

انہوں نے تمام سول سروس ٹریننگ کورسز میں ٹاپ کیا تھا۔ سنگجانی، اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے زمیندار خاندان کا ایک سپوت، جن کی خیبرپختونخوا اور پنجاب کے کئی اضلاع میں زمینیں ہیں، ڈاکٹر توقیر کو سول سروس میں اپنی عاجزی اور مثبت انداز سے مسائل کے حل میں مدد کرنے کیلئے پہچانا جاتا ہے۔

پرنسپل سیکرٹری عموماً سیاست دانوں اور وزراء کے غصے کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن 13؍ جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی ڈاکٹر توقیر کا مسائل سے نمٹنے کا انداز پریشانی سے پاک رہا۔

نگراں وزیر اعظم کی جانب سے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر انہیں عہدے پر برقرار رکھنے کو کئی لوگوں نے ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا تھا اب ڈاکٹر توقیر ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر اپنا نیا سفارتی کیریئر شروع کرنے جا رہے ہیں جہاں وہ پاکستان، مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، ایران اور گھانا سمیت دیگر ممالک بھی جائیں گے۔

تحریر:انصار عباسی