بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ایف آئی اے کا آئی ایس آئی سے کیا تعلق؟ کیا وہ اس کی پراکسی ہے؟ جسٹس بابر ستار

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت جاری ہے جس دوران جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کا آئی ایس آئی سے کیا تعلق؟ کیا وہ آئی ایس آئی کی پراکسی ہے؟

نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس بار ستار کیس کی سماعت کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور عدالتی معاون چوہدری اعتزاز احسن عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر عدالت نے اعتزاز احسن سے مکالمہ کیا کہ 4 متفرق درخواستیں آئی ہیں ہم وہ پہلے سن لیں آپ تشریف رکھیں۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ متفرق درخواستیں دائر ہوئی ہیں پہلے یہ سن لیتے ہیں، پہلے تو متفرق درخواستیں طے ہوں گی۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کا کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے، اعتراض ہے کہ ہائی کورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا ہے، جسٹس بابر ستار سمیت 6 ججز نے انٹیلی جنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھا ہے۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے کا آئی ایس آئی سے کیا تعلق ہے؟ کیا وہ آئی ایس آئی کی پراکسی ہے؟ آئی ایس آئی کے معاملے سے ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے؟ یہ خط ایف آئی اے سے کس طرح متعلقہ ہے؟ کیا خط خفیہ اداروں کے حوالے سے ہے ؟

بعد ازاں عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کو خط کا متعلقہ حصہ پڑھنے کی ہدایت دی۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ جسٹس شوکت صدیقی کے جو الزامات ہیں اس عدالت کے ججز ان کو سپورٹ کر رہے ہیں ، اس عدالت کے ججز نے کہا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کی حمایت کرتے ہیں، آپ نے خط کا جو حصہ پڑھا یہ آئی ایس آئی سے متعلق ہے ایف آئی اے سے متعلق نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔

جسٹس بابر ستار نے مزید کہا کہ آپ نے متفرق درخواست میں لکھا ہے کہ ہائی کورٹ کے ججز نے شکایت کی، یہ شکایت کس طرح ہے؟ جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی نے الزامات لگائے، ہم تو حمایت کر رہے ہیں، ہائی کورٹ ججز کا خط آئی ایس آئی سے متعلق ہے ایف آئی اے سے متعلق نہیں۔

انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ایف آئی اے کا ججز کے گھروں میں خفیہ کیمرے لگانے سے کوئی تعلق ہے ؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نہیں ان کا تعلق تو نہیں ہے، ایک پٹیشن میں ایجنسیز کے کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے اس لیے میں کہہ رہا ہوں۔

جج نے مزید کہا کہ اگر ایگزیکٹو ججز کو بلیک میل کرے تو کیا ججز کا مفادات کا ٹکراؤ ہو جائے گا ؟ مفادات کے ٹکراؤ کی کیا آپ اس طرح تعریف کریں گے ؟

بعد ازاں اعدالت نے یف آئی اے کی بینچ پر اعراض کی متفرق درخواست 5 لاکھ جرمانے کے ساتھ خارج کردی۔

عدالت نے دائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ بھی دے دیا۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ ججز کے خط کے کسی ایک معاملے سے بھی ایف آئی اے کا کیا تعلق ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ بادی النظر میں تو ایف آئی اے کا کوئی تعلق نہیں بنتا، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ پھر ایف آئی اے کیس نہ سننے کی متفرق درخواست کیسے دائر کر سکتی ہے؟

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے افسر سے متفرق درخواست کی منظوری کے حوالے سے جواب طلب کر لیا۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ انٹیلی جنس بیورو کی متفرق درخواست کس کی منظوری سے دائر ہوئی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو نے منظوری دی ہے، جسٹس بابر ستار نے دریافت کیا کہ اُن کا کوئی نام ہو گا، والدین نے کوئی نام رکھا ہو گا، ایدیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کا طارق محمود نام ہے۔

دوران سماعت آئی بی حکام عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

اس کے بعد جسٹس بابر ستار نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے ایک درخواست دائر کی ہے میں یہ کیس نا سنوں، یہ اعتراض کی گراؤنڈ کیسے ہو سکتی ہے ؟ آپ اسی فیصلے کی بنا پر اپنے دلائل دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیمرا کی درخواست بھی 5 لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کردی، جسٹس بابر ستار نے پی ٹی اے کی بینچ پر اعتراض کی متفرق درخواست بھی 5 لاکھ روپے جرمانہ لگا کر خارج کردی۔

اس موقع پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ‏اسلام آباد ہائیکورٹ کے آج کے حکم نامے نے میرا قد 20 فٹ اونچا کردیا، وکلا نے روسٹرم پر آکر جسٹس بابر ستار کی بہادری کو سراہا

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ عدالت چیئرمین پی ٹی اے اور ممبران کو شوکاز نوٹس جاری کرنے سے متعلق بھی دیکھے گی۔

یاد رہے کہ 27 اپریل کو ’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق آڈیو لیکس کیس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی تھی۔

آڈیو لیکس کیس میں پیمرا، پاکستان ٹیلی پی ٹی اے، ایف آئی اے اور آئی بی نے متفرق درخواستیں دائر کردیں تھیں۔

ان چاروں اداروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواست میں مؤقف اپنایا کہ اسی نوعیت کے دوسرے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اور بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جسٹس بابر ستار سماعت سے معذرت کرلیں۔

یاد رہے کہ 14 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے مبینہ آڈیو لیک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا تھا کہ کیا پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کسی ایجنسی کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے؟

5 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے پی ٹی اے کے چیئرمین کو طلب کرلیا تھا۔

یاد رہے کہ 19 فروری کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران سرکاری افسران کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

13 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشری بی بی اور نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف درخواستوں کو یکجا کردیا تھا۔

19 ستمبر کو سماعت کے دوران آڈیو لیکس کے خلاف کیس میں وزارت دفاع نے سرکاری افسران اور دیگر اہم شخصیات کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اور لیک ہونے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

اس کے بعد 20 دسمبر کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے کسی ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں دی۔

بعد ازاں 27 دسمبر کو خفیہ ایجنسی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ عام ہیکرز مبینہ آڈیو لیک کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ بشریٰ بی بی، نجم ثاقب کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے عدالت میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔

پسِ منظر
واضح رہے کہ 29 اپریل 2023 کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آگئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا۔

مبینہ آڈیو میں حلقہ 137 سے امیدوار ابوذر چدھڑ سابق چیف جسٹس کے بیٹے سے کہتے ہیں کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں، جس پر نجم ثاقب کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن آگئی ہے۔

اس کے بعد نجم ثاقب پوچھتے ہیں کہ اب بتائیں اب کرنا کیا ہے؟ جس پر ابوذر بتاتے ہیں کہ ابھی ٹکٹ چھپوا رہے ہیں، یہ چھاپ دیں، اس میں دیر نہ کریں، ٹائم بہت تھوڑا ہے۔

اس حوالے سے تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی، تحریک کے متن کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو سامنے آئی ہے، مبینہ آڈیو کے معاملے کی فرانزک تحقیقات کرائی جائیں، نجم ثاقب کی آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اس تحریک کی منظوری کے اگلے روز ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے تحقیقات کے لیے اسلم بھوتانی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کر دی تھی، کمیٹی میں شامل دیگر ارکان میں شاہدہ اختر علی، محمد ابوبکر، چوہدری محمد برجیس طاہر، شیخ روحیل اصغر، سید حسین طارق، ناز بلوچ، خالد حسین مگسی، وجیہہ قمر اور ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی اپنی تحقیقات اور انکوائری کے سلسلے میں کسی بھی تحقیقاتی ادارے کی مدد لے سکے گی اور اپنی جامع تحقیقات کرکے رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

30 مئی کو نجم ثاقب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی اسپیشل کمیٹی کی تشکیل چیلنج کردی تھی, درخواست میں نجم ثاقب نے عدالت سے استدعا کی کہ اسلم بھوتانی کی سربراہی میں پارلیمانی پینل کی کارروائی روک دی جائے کیونکہ یہ باڈی قومی اسمبلی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کمیٹی نے انہیں طلب نہیں کیا لیکن کمیٹی کے سیکریٹری نے اس کے باوجود انہیں پینل کے سامنے پیش ہونے کو کہا۔

دوسری جانب 8 دسمبر 2022 کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک ہوئی جس میں دونوں کو سابق وزیر اعظم کے پاس موجود گھڑیوں کی فروخت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

21 سیکنڈ پر مشتمل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو میں زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی کو گھڑیوں کے بارے میں بات چیت کرتے سنا جاسکتا ہے۔