بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

مخصوص نشستیں تفصیلی فیصلہ، تمام نظریں الیکشن کمیشن پر

اسلام آباد(طارق محمود سمیر)مخصوص نشستوں سے متعلق 12جولائی کے فیصلے کے طویل عرصے بعدبالآخرآٹھ ججزکی جانب سے تفصیلی فیصلہ جاری کردیاگیاہے جس میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمدکیاجائے کیونکہ تکنیکی بنیادوں پر یہ فیصلہ کیاگیاہے کہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کا حق ہیاور پشاورہائیکورٹ کے فیصلے کو بھی کالعدم قراردے دیاگیا،70صفحات کے تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ کے دوججز کے ریمارکس پر بھی شدیدبرہمی کااظہارکرتیہوئے ان ریمارکس کو ججز کے منصب کے منافی قراردیاگیاہے،فیصلے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ الیکشن کمیشن آئین اور قانون پرعمل نہیں کررہااورالیکشن کمیشن کا مخصوص نشستیں دیگرجماعتوں کو دیناہیآئین کے منافی ہے، یہ معاملہ 8فروری کے انتخابات کے بعد سے مختلف عدالتوں اور فورمزپرزیربحث اور زیرسماعت رہا،الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انٹراپارٹی الیکشن بروقت اور قانون کے مطابق نہ کرانے کو جوازبناکر انتخابی نشان بلاواپس لے لیاتھااور بعدازاں سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقراررکھا،الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے سنی اتحاد کونسل یاتحریک انصاف کو یہ نشستیں دینے کی بجائے دیگرسیاسی جماعتوں میں تقسیم کردی تھیں،پشاورہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کوبرقراررکھا،سپریم کورٹ میں فل کورٹ کی طویل سماعت ہوئی ،بارہ جولائی کوفیصلہ دیاگیاتاہم اس فیصلے میں آٹھ اکثریتی ججز نے بعض آئینی شقوں اورالیکشن ایکٹ کو نظرانداز کرکے یہ نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم جاری کیادلچسپ  بات یہ تھی کہ رٹ پٹیشن سنی اتحادکونسل کی طرف سے دائرکی گئی تھی اور تحریک انصاف کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں یہ بیان دیاتھاکہ یہ نشستیں اگرسنی اتحاد کونسل کو دے دی جائیں تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا،8ججزکے اکثریتی فیصلے کو حکومت اور الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیااور اس فیصلے پر آج تک عملدرآمدنہیں ہوسکا،حکومت نے فیصلے پر عملدرآمدکرنے کی بجائے الیکشن ایکٹ 2017 میں بعض ترامیم پارلیمنٹ سے منظور کرائیں اور یہ ایکٹ ابھی تک نافذالعمل ہے،عدالت نے اسے کالعدم قرارنہیں دیا،پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان کشیدگی کا ماحول ہے، آئین میں ترامیم کااختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے لیکن حال ہی میں دیکھاجائے تو دو مواقع پر دوعدالتی فیصلوں سے یہ تاثر پیداہوا کہ آئین کودوبارہ لکھاگیاہے ،ججز کو آئین دوبارہ لکھنے کا کوئی اختیارنہیں،وہ آئینی حدودمیں رہتے ہوئے تشریح کااختیارضروررکھتے ہیں،بدقسمتی سے ماضی میں فوجی آمروں کو سپریم کورٹ سے تحفظ ملتارہا،ماضی کے ججز نے فوجی آمروں کے خلاف بہت کم فیصلے دیئے ،جسٹس ریٹائرارشادحسن نے پرویزمشرف کے مارشل لاء کو غیرآئینی وغیرقانونی قراردینے کی بجائے نہ صرف سابق فوجی آمرکو تین سال حکومت کرنے کااختیاربلکہ تاریخ کابڑامتنازع فیصلہ دیتے ہوئے1973کے آئین میں ترامیم کا بھی اختیاردیااور ریٹائرمنٹ پرسابق فوجی آمرنے جسٹس(ر)ارشادحسن خان کو 2002کے انتخابات کے لیے چیف الیکشن کمشنر مقررکیا،جب سے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور چیف جسٹس کے درمیان اختلافات پیداہوئے ہیں تو ججز کمیٹی اور بنچزکی تشکیل میں مسائل پیداہورہے تھے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے چندروزقبل ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیاجس کے تحت نئی ججز کمیٹی تشکیل دی گئی تاہم جسٹس منصورعلی شاہ نے کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیاہے اور چیف جسٹس کو ایک خط لکھاہے جس میں ان کا موقف ہے کہ جسٹس منیب کو کوئی وجہ بتائے بغیراس اہم کمیٹی سے کیوں نکالاگیاہے ؟اور آرڈیننس پر عمل نہیں کرناچاہئے تھا،جسٹس منصور علی شاہ کایہ اپناموقف ہے تاہم جس طرح عدالت کو آئین میں تشریح کرنے اور اہم فیصلے دینے کااختیارہے اسی طرح حکومت کے پاس صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا آئینی اختیارموجو د ہے اور جب آرڈیننس جاری ہوجائے تو اس پر عملدرآمدفوری شروع ہوجاتاہے،عدلیہ میں تقسیم کسی طور پر بھی ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے ،اداروں کی لڑائی کا تاثر ختم کرنے کی ضرورت ہے ،آج کے تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن ایک بڑی مشکل میں پھنس گیاہے کہ ایک طرف الیکشن کمیشن کے سامنے سپریم کورٹ کے 8اکثریتی ججز کا تفصیلی فیصلہ ہے جس میں واضح طور پر کہاگیاہے کہ مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دی جائیں ،الیکشن کمیشن کاموقف ہے کہ تحریک انصاف کاپارٹی ڈھانچہ آئینی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے جب کہ دوسری جانب حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی اور اس کا اطلاق ماضی سے کیاہے ،سپیکرنے خط لکھاہے کہ مخصوص نشستیں کس کو دی جانی چاہئیں،آئندہ چندروزمیں الیکشن کمیشن جو فیصلہ کرے گا ا س کے ملکی سیاست اور حکمران اتحاد کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔