اسلام آباد (صغیر چوہدری)سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں سپریم کورٹ کے لیاقت حسین کیس اور ایف بی علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا قانون 1967 سے موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کا ڈسپلن خراب کرنے والے کسی بھی شخص کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ فوج کے دائرہ اختیار کو کس حد تک بڑھایا جا سکتا ہے اور کیا ہر سویلین جرم فوجی عدالت کے دائرے میں آتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ ایف بی علی کیس مارشل لا کے دور کا تھا، جہاں ذوالفقار علی بھٹو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ فوج کے کام میں مداخلت یا کسی سازش کے ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 9 مئی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان میں مظاہرین پر املاک کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے، لیکن کسی فوجی افسر کا ٹرائل نہیں ہوا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ مظاہرین کور کمانڈر ہاؤس تک کیسے پہنچے اور یہ واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا ان مظاہرین میں سے کسی کے خلاف شواہد موجود ہیں کہ وہ کسی فوجی اہلکار کے ساتھ رابطے میں تھے؟
خواجہ حارث نے مزید کہا کہ اگر کوئی شخص کسی دفاعی ادارے سے ہتھیار چوری کرتا ہے تو اس کا ٹرائل بھی فوجی عدالت میں ہوگا، کیونکہ یہ عمل فوج کے ڈسپلن کو متاثر کرتا ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے نشاندہی کی کہ 9 مئی کو کئی مظاہرین کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، اور ان تمام افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں چلا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ وہ ملزمان کی تفصیلات عدالت میں پیش کریں گے۔
کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے، اور وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث اپنے دلائل کل بھی جاری رکھیں گے۔