اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکہ میں مقیم معروف پاکستانی بزنس مین عمران خان اوراسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کرداراداکرنے والے تنویر احمد خان نے انکشاف کیاہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کےدرمیان مذاکرات میں کافی کامیابی ہوگئی تھی لیکن بعض متضاد بیانات اورسوشل میڈیا جنگجوئوں کی وجہ سے معاملات خراب اور پیچیدہ ہوگئے پارٹی قیادت کاایک بیانیہ نہیں بن پارہاریاست سب سے آگے ہوتی ہے کوئی بھی سیاسی جماعت ریاست سے بالا ترنہیں ہوسکتی جب عمران خان خود وزیراعظم تھے توکالعدم تحریک لبیک کے احتجاج کے وقت عمران خان نے واضح اعلان کیاتھاکہ ریاست ٹی ایل پی سے بلیک میل نہیں ہوگی اورانہیں احتجاج نہیں کرناچاہیے اسی طرح جب کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے لوگ بڑی تعدادمیں دہشت گردحملے میں مارے گئے اور ان کے لواحقین لاشیں رکھ کرمطالبہ کررہے تھے کہ جب تک وزیراعظم نہیں آتا وہ انہیں دفن نہیں کریں گے اس پربھی عمران خان کاموقف آیاتھاکہ بلیک میل نہیں ہوں گے عمران خان سے میری ایک نہیں سات ملاقاتیں اڈیالہ جیل میں کرائی گئیں اور ایک وقت میں انہیں داڑھی رکھی ہوئی تھی جب میں نے ان سے پوچھاکہ آپ نے واقعی داڑھی رکھ لی ہے توانہوں نے کہاکہ ایسی بات نہیں میری 15دن سے کسی سے ملاقات نہیں کرائی گئی اورسستی کی وجہ سے میں نے شیو نہیں کیاجب میں نے ان سے کہاکہ باہر تویہ خبریں گرم ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ آپ کوتنگ کررہی ہے شیو کرنے کی اجازت نہیں دے رہی اورکھانے میں زہرملانے کی باتیں کی جارہی ہیں جس پرعمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہاتھا ایسی کوئی بات نہیں نہ تومجھے بلاوجہ تنگ کیاجارہاہے اورنہ ہی کھانے میں زہرملانے والی باتوں میں کوئی صداقت ہے ،انہوں نے یہ بات ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم اورانگریزی روزنامے کودئیے گئے انٹرویو میں کہی ۔ان کامزید کہناتھاکہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہونے والے ممکنہ مذاکرات میں متعدد متضاد بیانات اور پیغامات صورتحال کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ایک حالیہ انٹرویو میں تنویر احمد خان نے کہا کہ عمران خان کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پیغام آتا ہے کہ وہ براہ راست اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا بیانیہ آتا ہے کہ وہ تحریک چلائیں گے اور “زمین گرم” کریں گے۔ پھر چند گھنٹوں بعد علیمہ خان کا پیغام آتا ہے کہ “بات کرنی ہے تو give and take کی بنیاد پر ہونی چاہیے”۔تنویر احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ تین مختلف بیانات ایک ہی پارٹی کے اعلیٰ سطحی افراد کی طرف سے آنا ایک واضح تضاد کو ظاہر کرتا ہے، جو کہ مذاکراتی عمل کے لیے نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال بالکل جائز ہے کہ “کہاں ہے اصل مسئلہ؟” اور انہوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب تک جذبات اور ذاتی پسند و ناپسند کو ایک طرف نہیں رکھا جائے گا، پاکستان کی سیاست میں استحکام نہیں آ سکتا۔انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان کے قریبی افراد، جیسے علی امین، علیمہ خان اور بیرسٹر گوہر، سب کی رسائی خان صاحب تک ہے، لیکن سب کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے، جس سے خان صاحب کے بیانیے میں بھی ابہام پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خان صاحب نیلسن منڈیلا کی مثالیں دیتے ہیں اور خود کو پاکستان کا “منڈیلا” سمجھتے ہیں، مگر موجودہ سیاسی حالات اس سطح کے مفاہمتی رویے کے متقاضی نہیں۔تنویر احمد خان نے مزید کہا کہ اگرچہ “ڈیل” کا لفظ سیاسی طور پر نامناسب ہے، لیکن خان صاحب کی نیت یہی تھی کہ ملک کے مفاد میں معاملات طے پا جائیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ خان صاحب چاہتے تھے کہ ان کے ذریعے کوئی بریک تھرو ہو، لیکن مختلف بیانات اور شخصیات کی ذاتی رائے نے اس عمل کو مشکل بنا دیا۔ان بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کے درمیان مکمل ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب مذاکراتی عمل میں پیش رفت سست روی کا شکار ہو رہی ہے، جس کا اثر براہ راست ملک کی سیاسی فضا پر پڑ رہا ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عمران خان کو ان کے اپنے لوگوں نے غلط مشورہ دیا اور انہیں ایسے کام کرنے پر مجبور کیا جس سے ان کے امکانات ہی خطرے میں پڑ گئے۔واضح رہے کہ تنویر احمد تقریباً دو دہائیوں تک عمران خان کے ذاتی دوست اور ڈونرز رہے ہیں اور جب وہ وزیر اعظم تھے تو اکثر ان سے ملاقات کرتے تھے۔