بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

تحریک عدم اعتماد،حکومتی امورٹھپ۔۔۔تحریر:قاضی سمیع اللہ

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے تناظر میں جہاں ملکی سیاست کا درجہ حرارت بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے وہاں یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ کیا حالیہ سیاسی صورتحال میں’’ حکومتی امور ‘‘معمول کے مطابق چل رہے ہیں یا نہیں ؟یقینا اس سوال کا جواب’’ نہیں ‘‘میں ہوگا ۔اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان کی حالیہ سیاسی مصروفیات کو دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جو اس امر کی غمازی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی تمام تر توجہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘کو ناکام بنانے پر مرکوز ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ حکومتی امور نمٹنانے کی بجائے اپنا زیادہ تر وقت’’ عوامی اجتماعات‘‘ پر صرف کررہے ہیں جس کا بنیادی مقصد اپنی سیاسی بھڑاس کو نکالنا ہے جبکہ ان عوامی اجتماعات میں بھی وہ اپنی روایتی ’’چور ، ڈاکواور لٹیرے ‘‘ کی گردان ہی الاپ رہے ہیں۔ملکی سیاسی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کابینہ کے ہفتہ واراجلاس تسلسل کے ساتھ موخر کیے جارہے ہیںہیں جبکہ اب تک کابینہ کے چار ’’اجلاس‘‘ ملتوی ہوچکے ہیں، کابینہ کے اجلاس بار بار ملتوی ہونے کی وجہ سے سی پیک سے منسلک منصوبے گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور گوادر فرینڈ شپ ہسپتال کے لیے خام مال کو اینٹی ڈمپنگ قانون سے مستثنیٰ قرار دینے جیسے اہم امور تاخیر کا شکار ہورہے ہیں ۔اسی طرح وفاقی کابینہ کے موخر ہونے والے گذشتہ اجلاس کے ایجنڈے میں 29 نکات شامل تھے جس میں آرمز لائسنس پالیسی بھی شامل تھی جبکہ مڈ ٹرم بجٹ ریویو کا کام بھی التواء میں پڑا ہے جو کہ عموماً مارچ میں شروع میں ہو جاتا ہے ۔اسی طرح احساس پروگرام کے بعض معاملات بھی کابینہ کی منظوری کے منتظر ہیں جبکہ پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے حوالے سے متعلقہ وزارتوں کے درمیان نظر ثانی جائزہ اجلاس بھی تعطل کا شکار ہیں ۔ بہر کیف حکومتی امور معمول کے مطابق چلتے ہوئے دکھائی دینے کی بجائے ٹھپ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔یہی وجہ کہ بیشتر وزارتوں میں وزیر دکھائی نہیں دیتے جس کی وجہ سے پالیسی معاملات لٹک گئے ہیں جن میں آئل ریفائنری پالیسی کی منظور ی جیسے غیر معمولی معاملات بھی شامل ہیں جبکہ ایسے میں نوکر شاہی کا وہ رویہ بھی شامل حال ہے جو وہ اکثر و بیشتر ایسے موقعوں پر اپناتی آئی ہے جب ملک میں حکومتی اور سیاسی اعتبار سے غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے۔یقینا اس وقت نوکر شاہی (بیورو کریسی)وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے منطقی انجام تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہوگی۔
دوسری جانب اپوزیشن کی سیاست بھی اپنی تحریک عدم اعتماد کے گرد ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کا لانگ مارچ جو مہنگائی کے خلاف ہونے جارہا تھا، اب اس میں سے’’ مہنگائی‘‘ کا ذکر قصہ پارینہ ہوگیا ہے ، لہذا اب یہ لانگ مارچ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے حوالے سے ایک نئی حکمت عملی میں تبدیل ہوچکا ہے۔جہاں تک اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ملکی سیاست میں بھونچال بر پا ہونے کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے نہ صرف حکومتی امور متاثر ہوئے ہیں بلکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی بھی غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے ہیں جبکہ اس دوران بھی’’ مہنگائی‘‘ اپنی رفتار سے بڑھتی رہی ہے۔ ادارہ شماریات کے مہنگائی کے حوالے سے تازہ اعداو شمار عوام کے دکھوں میں اضافے کی منادی کررہے ہیں ۔ گذشتہ ہفتے کے دوران گھی ، آٹا ،پیاز ،چاول، دال مسور، دال مونگ ، تازہ دوھ، دہی ، صابن، کیلے،انڈے،بیف اور مٹن سمیت 29 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے ،گھی کی قیمت میں 27 روپے 18 پیسے فی کلواضافہ ہوا ہے جبکہ سرسو ںکے تیل کی فی کلو قیمت 5 روپے 56 پیسے بڑ ھائی گئی ہے اور آٹا کے 20کلو کا تھیلا 3 روپے 37 پیسے مزید مہنگا کردیا گیاہے ۔دوسری طرف یوٹیلیٹی سٹورز پر رمضان المبارک کی آمد سے پہلے بہت سی اشیاء خوردونوش کی قیمتیں بڑھائی جانے کی خبریں سامنے آئی ہیں جبکہ حکومت نے عوام کو یوٹیلیٹی اسٹوروں پر سبسڈی دینے لیے’’رمضان پیکیج ‘‘دینے کا اعلان بھی کررکھا ہے ۔ ایک جانب حکومت کا رمضان پیکج کا اعلان ہے تو دوسری جانب یوٹیلیٹی اسٹوروں پر اشیاء خورودونوش کی قیمتوں میں اضافہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی عوامی ریلیف کی پالیسیوں میں تصادم پایا جاتا ہے ۔یہی وہ نکتہ ہے جو اس تاثر کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ حکومت کی جانب سے عوامی ریلیف کے منصوبے محض اعلانات کی ہی حد تک کشش رکھتے ہیں جبکہ اس حوالے سے عملدرآمد کی پالیسی مایوس کن رہی ہے ۔اسی طرح ملکی روپے کی قدر بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں روز بروز گرتی جارہی ہے جبکہ ڈالر روپے کے مقابلے 180روپے سے تجاوز کرگیا ہے ۔الغرض ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے سنگین مسائل حکومتی ہی بلکہ اپوزیشن کی سطح پر بھی نظر انداز ہورہے ہیں ،کوئی نہیں ہے جو مہنگائی اور بے روزگاری کے خلا ف پُر اثر آواز بلند کرے ہر کوئی اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے ۔ملکی حالیہ سیاست ملکی معیشت پر کس قدر اپنے منفی اثرات مرتب کررہی ہے اس حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی تبصرے اور تجزیئے سامنے آئے ہیں جن میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہیں اور ملکی معیشت کے فیصلہ سازی کے حوالے سے امور بھی متاثر ہورہے ہیں جس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈسے’’ ساتواں نظر ثانی جائزہ ‘‘ مذاکرات جیسے معاملات شامل ہیں ۔ بہر کیف ملکی سیاست میں پائے جانے والی ’’غیر یقینی‘‘سے جہاں عام آدمی کی معمول کی زندگی متاثر ہورہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے ملکی معیشت کے لیے مشکلات میں بھی اضافہ ہورہاہے ۔بیرونی سرمایہ کار وں کی سرمایہ کاری تو ویسے بھی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن حالیہ سیاسی صورتحال میں مقامی سرمایہ کار بھی اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے تعمیراتی انڈسٹریز ، رئیل اسٹیٹ مارکیٹ ، فارما سیوٹیکل اور ایگرو بیسڈ انڈسٹریزسمیت دیگر انڈسٹریز پرغیر معمولی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔بس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ سیاسی صورتحال میں حکومتی امور’’ داخل دفتر ‘‘کیے جاچکے ہیں ۔